سپریم کورٹ: وزیراعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی، وکیل جسٹس عیسیٰ

05 نومبر 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کے وکیل منیر اے ملک نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ اس معاملے میں وزیر اعظم نے کابینہ کو بائی پاس کیا اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ مواد اکٹھا کرتے ہوئے بھی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی کارروائی کے خلاف جسٹس عیسیٰ و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ان کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت نے سوال پوچھا تھا کیا ایگزیکٹو جج کے خلاف مواد اکٹھا کر سکتا ہے تو میں بتانا چاہوں گا کہ ایگزیکٹو، صدر مملکت کی منظوری کے بعد ہی مواد جمع کر سکتا ہے۔

ساتھ ہی منیر اے ملک نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو کسی جج کے خلاف مواد جمع کرنے کا اختیار نہیں، جس پر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ کیا صدر کو اختیار ہے کہ مواد جمع کرنے کا حکم کسی بھی ادارے کو دے سکے، اس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ صدر کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں۔

مزید پڑھیں: 'جج کےخلاف ریفرنس بھجوانے میں صدر کا وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنا غیرآئینی ہے'

سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال صدر کا کام نہیں، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ صدر کو جج کے خلاف شکایت وزیراعظم اور کابینہ بھی بھجواسکتی ہے۔

وکیل کی بات پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا صدر، وزیراعظم کی سفارش کے خلاف حکم دے سکتا ہے، ان کے ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم صدر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر عمل سے روک سکتا ہے۔

جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کی تعیناتی اور برطرفی وفاق کا ایگزیکٹو کا اختیار ہے، اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایگزیکٹو کے اختیارات جمہوریت میں صدر کیسے استعمال کر سکتا ہے۔

عدالتی ریمارکس پر منیراے ملک نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر معاملہ صدر کو نہیں بھیجا جاسکتا، جج کے خلاف ملنے والے مواد پر صدر کی رائے قائم ہونا لازمی ہے، صدر مملکت کا کام صرف ڈاکخانہ والا نہیں، ہر قانون کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔

وکیل کے جواب پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 کا اطلاق صرف اعلی عدلیہ کے ججز پر ہی نہیں ہوتا، آڈیٹر جنرل، الیکشن کمیشن اراکین کو بھی آرٹیکل 209 کے تحت ہی ہٹایا جاتا ہے، اس آرٹیکل کی ایسی تشریح نہیں چاہتے کہ کسی کو عہدے سے ہٹایا ہی نہ جا سکے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف ریفرنس ہو وہ بد نیتی کا الزام لگا کر سپریم کورٹ آ جائے، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا، ججز اور انکے اہلخانہ کی جاسوسی اور نجی زندگی میں مداخلت بھی تضحیک ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں جج اور اہلخانہ کی تضحیک اور انہیں حراساں کیے جانے کو ثابت کرنے کی کوشش کی، لہٰذا عدالت کو طے کرنا ہوگا کہ ججز کے معاملے میں ایگزیکٹو کے کیا اختیارات ہیں۔

اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اصول وضع کرنے کا اختیار نہیں، آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ وزیراعظم کو ہے ان کے اقدامات کو نہیں، وزیراعظم کے غیرقانونی احکامات چیلنج ہو سکتے ہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ استثنیٰ وزیراعظم اور وزرا کی ذاتی زندگی اور فوجداری جرائم پر نہیں ہوتا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ کیا ججز کو حاصل استثنیٰ وزیراعظم سے زیادہ مضبوط نہیں؟ ججز کے کردار پر تو پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہو سکتی، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وزیراعظم غیرقانونی اقدام کریں گے تو آرٹیکل 248 کا استثنیٰ دستیاب نہیں ہوگا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر کی شکایت صدر مملکت کے سامنے نہیں رکهی گئی، صدر مملکت سارے معاملے پرآنکهیں بند نہیں کر سکتے، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدر اور وزیراعظم نے کہاں غیرآئینی اقدام کیا ہے یہ نشاندہی کریں، درخواست میں عمومی باتیں بہت زیادہ ہیں۔

اس پر جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ شہزاد اکبر نے اپنی طرف سے ساری انکواری کروائی، صدر مملکت نے تیار ریفرنس پر اپنی آزاد رائے نہیں بنائی، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدرمملکت کے اقدام میں بدنیتی کی نشاندہی بهی کریں اور اس پر عدالت کو مطمئن کریں، عدالتی نذیر سے نکل کر قانون کی خلاف ورزی کی نشاندہی کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

عدالتی ریمارکس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کو بائی پاس کیا، وزیراعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، مواد اکٹھا کرتے ہوئے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیراعظم کا مشورہ افتخار چوہدری کیس میں بھی تھا، تاہم افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی وزیراعظم نہیں صدر کے اقدامات کو قرار دیا گیا، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اب وزیراعظم اکیلے کوئی سفارش نہیں کر سکتے، اختیار کابینہ کو منتقل ہوچکا ہے جبکہ صدر مملکت کی ریفرنس پر آزادانہ رائے قائم ہونا لازمی ہے یا نہیں یہ واضح نہیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں کابینہ کو بائی پاس کیا گیا، اس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا صدر صرف سفارش کا پابند ہے یا اس کا اپنا اطمینان ضروری ہے؟ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار صرف حکومت کی سفارش پر استعمال نہیں ہو سکتا، قانون میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے صدر کا اطمینان ضروری ہے، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وزیراعظم کا عہدہ پارٹی اور سیاست سے بالاتر ہوتا ہے جبکہ صدر مملکت قوم کی وحدت کی علامت ہوتا ہے۔

وکیل نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ کسی فیصلے پر خوش نہ ہوکر بھی جج کے خلاف سفارش کر سکتے ہیں، تاہم صدر کی رائے ہی ایگزیکٹو اورعدلیہ کو آمنے سامنے آنے سے روک سکتی ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صدر کو کسی جج سے ذاتی عناد ہو، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ صدر کو ذاتی عناد ہو تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو ہٹانے کی بات نظرثانی درخواست میں دائر کی تهی، اس پر جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ وہ نظرثانی کی درخواست واپس لے لی گئی تهی۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اس نظرثانی درخواست سے حکومت کی سوچ کا پتہ چلتا ہے، جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کسی کے اسٹیٹ آف مائینڈ (سوچ) کا کیسے جائزہ لے سکتی ہے۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم نے ریفرنس پر اپنی سفارش نیک نیتی کے ساتھ دی، وزیراعظم نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، اس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ کب سنبهالا، وزیراعظم نے رواں سال گوشواروں میں زیر کفالت کا ذکر کرنا تها۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وزیر قانون نے ریفرنس کی سمری کابینہ کے بجائے وزیر اعظم کو بهیجی، وزیرقانون نے شہزاد اکبر کو انکوائری کا اختیار دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خفیہ ڈیٹا ایف بی آر سے لیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اور اہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں'

جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے بتایا کہ وزیرقانون ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں، ایم کیو ایم کی دھرنا کیس میں نظرثانی کی درخواست زیرالتوا ہے، ریفرنس دائر ہونے کے بعد بهی شہزاد اکبر تحقیقات جاری رکهے ہوئے ہیں جبکہ یہ ریفرنس اختیارات کے بغیر تیار کیا گیا۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کا دروازہ ہرصورت میں ہی کھلا ہوتا ہے، آپ کو نہیں لگتا سارا اختیار صرف صدر کے پاس ہونا زیادہ خطرناک ہے؟

ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا صدر اپنے طور پر ریفرنس کی کارروائی شروع کر سکتا ہے؟ اس پر منیر اے ملک نے کہا صدر کو ازخود کارروائی کا اختیار نہیں شکایت ملنا لازمی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے مطابق جج سے ذاتی عناد ہو بھی تو صدر کچھ نہیں کر سکتا۔

عدالتی ریمارکس پر منیر اے ملک نے کہا کہ صرف آرٹیکل 58 ٹو کا اختیار کو صدر براہ راست استعمال کرسکتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اگر کسی ادارے کے پاس جج سے متعلق کوئی معلومات ہو تو وہ کیسے کارروائی کرے گا، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ادارے کے قوانین کو مدنظر رکھنے کے ساتھ اس کو اجازت لینا بھی ضروری ہوگی۔

اس موقع پر منیر اے ملک نے کہا کہ جج کے تقرر اور ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر کل مزید دلائل دوں گا، جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے مذکورہ معاملے کی سماعت کل (بدھ) تک ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں