ٹوئٹر ملازمین پر سعودی عرب کیلئے ’جاسوسی‘ کرنے کا الزام

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2019
رپورٹ کے مطابق ملازمین نے حکومت پر تنقید کرنے والوں کا ذاتی ڈیٹا بھی اکٹھا کیا — فوٹو: اے پی
رپورٹ کے مطابق ملازمین نے حکومت پر تنقید کرنے والوں کا ذاتی ڈیٹا بھی اکٹھا کیا — فوٹو: اے پی

امریکا کے وفاقی جاسوس تحقیقاتی ادارے ’ایف بی آئی‘ نے مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ کے 2 سابق ملازمین پر مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ملک سعودی عرب کے لیے جاسوسی کرنے پر امریکی عدالت میں مقدمہ کردیا۔

ایف بی آئی اے کے خصوصی ایجنٹ لطیتیا وو نامی نے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو کی عدالت میں 26 صفحات پر مشتمل اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ سعودی نژاد 2 ٹوئٹر ملازمین سعودی عرب کی جاسوسی کرتے رہے۔

امریکی اخبار ’واشنٹگن پوسٹ‘ نے ایف بی آئی کے خصوصی ایجنٹ کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست کے تمام صفحات شائع کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی نژاد ملازمین سعودی حکومت کے لیے جاسوسی کرتے رہے۔

’واشنٹگٹن پوسٹ‘ نے اسی کیس کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایف بی آئی کی جانب سے ایک سعودی نژاد شہری سمیت مجموعی طور پر تین افراد کے خلاف جاسوسی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی کی جانب سے سعودی نژاد ٹوئٹر کے سابق ملازم علی الزرباح اور امریکی شہری و ٹوئٹر کے سابق ملازم احمد ابو عامر پر سعودی حکومت کے لیے جاسوسی کے الزامات لگائے ہیں۔

دونوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 2015 میں ٹوئٹر پر سعودی حکومت کے مخالفین اور ان پر تنقید کرنے والی اہم شخصیات سمیت مجموعی طور پر 6 ہزار افراد کی جاسوسی کی۔

دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے 6 ہزار ٹوئٹر صارفین کی اہم و ذاتی معلومات اکٹھی کیں اور بعد ازاں مبینہ طور پر انہیں سعودی حکام کے حوالے کیا۔

عدالت میں پیش کیے گئے دستاویزات میں تیسرے شخص سعودی نژاد امریکی شہری احمد المتارعی پر جاسوسی کے الزامات لگائے ہیں۔

تیسرے شخص پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹوئٹر سے معلومات اکٹھی کرنے والے دونوں افراد اور سعودی حکام کے درمیان روابط کار کا کام سر انجام دیا۔

واشنٹگٹن پوسٹ کے مطابق ایف بی آئی اے کے ایجنٹ کی جانب سے سان فرانسسکو کی عدالت میں 26 صفحات پر مشتمل درخواست جمع کرائے جانے کے وقت ایک ملزم امریکی شہری احمد ابو عامر کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوسری جانب ٹوئٹر انتطامیہ نے بھی سابق ملازمین کی جانب سے 4 سال قبل جاسوسی کیے جانے کے الزامات پر اپنا بیان دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ سابق ملازمین نے ڈیٹا اکٹھا کیا تھا۔

ٹوئٹر انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ 2015 میں سعودی شہری علی الزرباح کو ٹوئٹر سے 6 ہزار افراد کا ذاتی ڈیٹا جمع کرنے پر ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق علی الزرباح ٹوئٹر پر ٹیکنیکل انجنیئر تھا اور جاسوسی کے الزامات کے بعد ملازمت سے نکالے جانے پر وہ بیٹی اور اہلیہ سمیت سعودی عرب چلے گئے تھے۔

ایف بی آئی کی جانب سے جن تین افراد پر سعودی عرب کے لیے جاسوسی کے الزامات لگائے گئے، ان میں سے صرف ایک ملزم احمد ابو عامر حراست میں ہیں جب کہ باقی 2 ملزمان کے حوالے سے خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا میں سعودی نژاد افراد پر سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے لیے جاسوسی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ ملزمان نے ٹوئٹر پر کن افراد کی جاسوسی کرکے ان کا ڈیٹا سعودی حکام کے حوالے کیا اور ان کے ڈیٹا فراہم کرنے پر سعودی عرب نے کن افراد کے خلاف کیا کارروائی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں