‘چیئرمین اے آر یو کے پاس جسٹس عیسیٰ کے خلاف شواہد جمع کرنے کا اختیار نہیں‘

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2019
وفاقی حکومت کو پہلے ایک باقاعدہ قانون کے تحت شہریوں کے فرائض بیان کرنے چاہیے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت کو پہلے ایک باقاعدہ قانون کے تحت شہریوں کے فرائض بیان کرنے چاہیے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لیگل ٹیم کے رکن بابر ستار نے کہا ہے کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین 'سروس آف پاکستان' کی تعریف پر پورا نہیں اترتے کیوں کہ وہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بابر ستار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سروس آف پاکستان کے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اے آر یو کوئی محکمہ قانون نہیں بلکہ صدارتی آرڈر پر قائم ہوا‘۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو نہ بھیجنے کا فیصلہ

10 رکنی عدالتی بینچ کی سربراہی جج جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں۔

وکیل نے زور دیا کہ اے آر یو کے چیئرمین کو وفاقی حکومت کا افسر نہیں سمجھنا چاہیے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) کے سیکشن 216 (پی) کا حوالہ دیتے ہوئے بابر ستار نے دلائل پیش کیے کہ کوئی بھی عدالت یا اتھارٹی بشمول سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں یا دولت سے متعلق معلومات نہیں مانگ سکتی خصوصاً تب جبکہ وہ سرکاری ملازم نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدر کے سامنے رکھا جانے والے مواد ناکافی تھا جس پر انہیں قائل کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا حصہ بن سکیں۔

بابرستار نے فارن ایکسچینج ریگولیشنز ایکٹ اور منی لانڈرنگ ایکٹ کے اقتباسات کا حوالہ دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ ججوں کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کسی بھی رپورٹ کے خلاف ان قوانین کے تحت دستیاب کوئی بھی مشینری حرکت میں نہیں لائی گئی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ضوابط کی خلاف ورزی قائم کرنے کے لیے ایس بی پی کو طلب کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق کا تعلق صرف ججوں کی حفاطت ہی نہیں بلکہ عدلیہ کا تحفظ بھی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے وضاحت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں ضابطہ اخلاق کی درخواست کی گئی تھی اور برطانیہ میں جائیدادوں کے حصول کے لیے فنڈز کے ذرائع کو ظاہر نہ کرنے پر بدعنوانی کا الزام ان پر عائد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق اور نامناسب برتاؤ کے ساتھ نمٹا گیا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ضابطہ صرف ججوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ایک ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کی حفاظت کے لیے تھا۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ضابطہ اخلاق کے تحت جج کو کچھ قوانین کی نظر میں بے قصور رکھا جائے اور محض ’12 افراد کھڑے ہوکر جج پر کیچڑ اچھالنا‘ شروع کردیں یہ ٹھیک نہیں۔

مزید پڑھیں: 'کابینہ کی منظوری کے بغیر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دیا جائے'

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل بابر ستار کو ہدایت دی کہ وہ جس مقدمے کے قوانین کا حوالہ نہیں دے سکتے اس پر زبردستی دلائل دینے سے گریز کریں۔

بابر ستار نے کہا کہ ایس جے سی، جج کے شہری حقوق کا تعین نہیں کرسکتی اور منی لانڈرنگ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) منی لانڈرنگ کے الزامات کی جانچ پڑتال کرسکتا ہے کیونکہ وہ قانون کے تحت قائم ہوا۔

اس سے قبل سماعت میں بابر ستار کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس مروجہ قوانین کو نظر انداز کرکے پاناما کیس کی طرز پر بنایا گیا۔

بابر ستار نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے 2017 کے فیصلے کی نشاندہی کی تھی جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین 62 کے تحت اقامہ (رہائشی اجازت نامہ) چھپانے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیرقانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں