میں نے دور سے حلوے کو غور سے دیکھا اور میز کی جانب بڑھنے لگی۔

امرتا نے میری جانب دیکھا اور بولی 'کہا جاتا ہے کہ یہ پنجاب کے سکھ تھے جنہوں نے گاجر کا حلوا مغلوں کو متعارف کرایا، بادشاہ اس کے شوخ رنگ، مہک اورساخت سے متاثر ہوئے اور ہر سو اس کی مقبولیت ملنے گی جبکہ یہ مٹھاس پوری سلطنت میں پھیل گئی۔ تو تیکنیکی طور پر یہ میرے آباواجداد تھے جنہوں نے گاجر کا حلوا دنیا کو متعارف کرایا، اور میں اسے تمہارے ساتھ شیئر کررہی ہوں'۔

میں نے پوچھا 'کیا واقعی؟'

امرتا نے کہا 'کچھ صدیوں پہلے میرے بزرگ، شہنشاہ اکبر کے شاہی مطبخ میں باورچی تھے اور مزیدار گاجر کا حلوا تیار کرنے ان ی کاصیت تھی۔ مغل بادشاہ اس وقت اپنے عروج پر تھے، ایک ایسی سلطنت جو جدید اور عظیم تھی اور باقی دنیا سے تجارت چاہتی تھی، 17 ویں صدی میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد نارنجی گاجر اس وقت تک یورپ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تک پھیل چکی تھی۔ اس وقت میرے بزرگوں نے اکبر اعظم کے مطبخ میں میٹھا گاجر کا حلوا تیار کیا'۔

اور امرتا کے مبینہ دعوے کے پیچھے سچائی تھی، مغل سلطنت اس زمانے میں پھیل رہی تھی اور بین الاقوامی تاجر نئی اشیا کو خریدنے اور مبادلہ کے لیے لارہے تھے اور گاجر کے بارے میں کہا جاتا ہے، ایسا ہی ایک خزانہ تھی۔

بنیادی طور پر گاجر کی رنگت ارغوانی (جامنی) تھی اور یہ لگ بھگ 5 ہزار سال قبل افغانستان میں کاشت ہوتی تھی، یہ سبزی متعدد رنگوں میں دستیاب تھی مگر نارنجی میں نہیں، یہ 17 صدی میں نیدرلینڈ کے باغبانی کے ماہرین نے ہاﺅس آف اورنج سے تعلق رکھنے والے ولیم آف اورنج کے اعزاز کے لیے نارنجی گاجر تیار کی۔

یہ اتفاق ہوسکتا ہے، مگر زندگی میں کوئی بھی کام اتفاق نہیں ہوتا۔ یہ نارنجی رنگ سرخ اور زرد گاجر کے جینیاتی مرکب کا نتیجہ ہوسکتا ہے اور شائد اس کا ہاﺅس آف اورنج سے کوئی نمایاں تعلق نہ ہو، مگر ڈچ شاہی خاندان یہ دعویٰ کرتا ہے کیونکہ اس دور میں اس کے پاس اختیار تھا۔

گاجر کا حلوا سردیوں کی بہترین سوغات ہے، اس مزیدار گرم حلوے سے کسی سرد دن کھانے سے پہلے یا بعد میں لطف اندوز ہوں یا چائے یا دودھ پتی کے ساتھ اس کا مزہ لیں۔

نارنجی گاجر دیکھنے میں خوش رنگ، زیادہ میٹھی اور بالکل چپچپی نہیں تھی چناچہ پنجابی باورچیوں میں جلد ہی پسند کی جانے لگی، انہیں نئی درآمدی گاجریں اور اس کی مٹھاس پسند آئی، اور یہ وہ دور تھا جب نئے پکوان ماہر اور صاحب ذوق باورچیوں کی جانب سے ایجاد کیے جاتے تھے، تو یہ میٹھی درآمدی گاجر حلوے کے مرکزی جز کے طور پر مٹھاس، دودھ اور مکھن کے ساتھ آزمانے کے لیے بہترین قسم نظر آئی، جس کے لیے آٹے اور گریوں کی ضرورت نہیں تھی۔

صوبہ پنجاب میں اسے فوری پسند کیا جانے لگا اور اس سے میٹھے اور چٹپٹے پکوان بنانے کے لیے نت نئی تراکیب تخلیق ہونے لگیں۔ یہ سبزی سردیوں میں ملتی تھی اور سرد موسم کا اثر کم کرنے کے لیے اس سے ایک گرم مزیدار میٹھا تیار ہونے لگا جو دن میں کسی وقت کھانے سے پہلے یا بعد، یا چائے یا دودھ کے ساتھ کھایا جاسکتا ہے۔

گاجر کے حلوے کے لیے درکار اجزا

ایک کلو گاجریں

ڈیڑھ سے پونے 2 لیٹر دودھ

200 گرام فریش کریم

120 گرام کم روغن والی ہیوی کریم یا heavy whipping cream

پونے 2 کپ چینی

2 سے 3 کھانے کے چمچ مکھن (بغیر نمک والا)

چوتھائی کپ تیل

8 سے 10 سبز الائچیاں

ایک کھانے کا چمچ کشمش

2 کھانے کے چمچ بغیر چھلکوں والے کٹے ہوئے بادام

طریقہ کار

گاجروں کو چھیل کر کدوکش کرنے کے بعد ایک طرف رکھیں اور پھر دودھ کو ابالنے کے لیے رکھ کر اس میں گاجروں کو شامل کردیں، گاجر اور دودھ ابل جانے کے بعد اس میں فریش کرم اور چینی کا اضافہ کردیں، اس دوران چمچ اس وقت تک مسلسل چلاتے رہیں، جب تک یہ مکسچر ابل نہ جائے، اس کے بعد آنچ درمیانی کردیں۔

جب دودھ خشک ہونے لگے تو اس میں ہیوی کریم کو شامل کرکے چمچ چلانا جاری رکھیں۔

کریم خشک ہونے پر مکھن، تیل اور الائچی کا اضافہ کردیں اور چمچ چلاتے ہوئے آنچ تیز کردیں۔

یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک تیل الگ نہ ہوجائے اور حلوے کی رنگت گہری نارنجی نہ ہوجائے۔ اس کے بعد کشمش اور باداموں سے اسے سجا کر پیش کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 17 نومبر 2019 کو ڈان ای او ایس میگزین میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں