کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل، نہ این آر او دیا جائے گا، چیئرمین نیب

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2019
ناقدین سمیت سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے—تصویر: ڈان نیوز
ناقدین سمیت سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے—تصویر: ڈان نیوز

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب کی نہ کسی سے دشمنی ہے نہ دوستی اس لیے کسی بھی قسم کا کوئی کمپرومائز (سمجھوتہ) نہیں ہوگا، نہ ہماری طرف سے کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل دی جائے گی اور نہ ہی این آر او ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا تعلق کسی حکومت سے نہیں صرف ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے کیوں کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان تاقیامت سلامت رہے گا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کوئی نیب سے یہ توقع نہ رکھے کہ اگر اس کا تعلق ارباب اقتدار سے ہے تو نیب اس کی طرف سے آنکھیں بند رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات تواتر سے کی جاتی ہے کہ شاید احتساب کے حوالے سے نیب کا جھکاؤ ایک جانب ہے جس کی میں تردید اور نفی کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی حکام کو 10 ماہ میں میگا کرپشن کیسز نمٹانے کی ہدایت

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناقدین سمیت سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، پہلے ہم نے ان مقدمات پر توجہ دی جو گزشتہ 20 سے 25 برسوں سے منظر عام پر تھے لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہورہی تھی، جس کے بعد اب ہم دوسرے محاذ کی جانب جارہے ہیں جہاں اس شکایت یا تنقید کا ازالہ ہوجائے گا کہ بظاہر احتساب یک طرفہ نظر آتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ الزام اس لیے درست نہیں کہ کچھ گروہ 30 سے 35 سال برسراقتدار رہے جبکہ ایک گروہ کو حکومت کرتے چند ماہ ہوئے ہیں چنانچہ دیکھنا ہوگا کہ ان دونوں عرصوں کے دوران کتنی کرپشن ہوئی۔

چیئرمین نیب نے دعویٰ کیا کہ 2017 کے بعد سے ایسا کوئی بڑا اسکینڈل منظر عام پر نہیں آیا کہ جس پر کوئی ناقد تنقید کرسکے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ٹی وی شوز پر اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں جس کا مقصد نیب کے تشخص کو خراب کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: عوام کو لوٹنے والی ہاؤسنگ سوسائیٹیز، بلڈرز بچ نہیں سکتے، چیئرمین نیب

انہوں نے بتایا کہ نیب پر بی آر ٹی کے حوالے سے بہت تنقید کی جاتی ہے حالانکہ اس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم امتناع جاری کیا ہوا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ یہ حکم امتناع واپس لیا جائے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مسلم کمرشل بینک (ایم سی بی) کے حوالے بات کی جاتی ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ نیب اس میں کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا ہوا ہے جس کے باعث ہم کچھ نہیں کرسکے۔

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ میں عمر کے حصے میں ہوں کہ دشنام تراشی، کردار کشی، الزام تراشی، لالچ اور مختلف قسم کے حربوں کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ یہ خیال بھی تصور میں لانا کہ میں سمجھوتہ کروں گا ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی نہ کسی سے دشمنی ہے نہ دوستی اس لیے کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، نہ ہماری طرف سے کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل دی جائے گی اور نہ این آر او ہوگا۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمیں قانون و آئین کے مطابق اپنا کام کرنا ہے جبکہ جنہوں نے آج تک نیب کے قانون کو نہیں پڑھا وہ بھی نیب قانون پر تنقید کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی کیا مجال، سب حکومت کرتی ہے، آصف علی زرداری

ان کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم اور عام کیس میں زمین آسمان کا فرق ہے کیوں کہ وائٹ کالر کرائم کی ابتدا مشرق سے ہوتی ہے تو انتہا مغرب میں ہوتی ہے اور کہیں کا کیس کا سراغ کہیں جا ملتا ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک مخصوص مدت میں یہ کام مکمل کیوں نہیں ہوا جبکہ ایسا تو اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی نہیں کرپاتی جن کے پاس ہر طرح کے وسائل میسر ہیں کیوں کہ ان کے ہاں تحقیقات کا کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ اگر نیب کسی کو گرفتار کرتا ہے تو سب سے پہلے یہ الزام لگ جاتا ہے کہ نیب سیاسی انتقام لے رہا ہے جبکہ نیب سیاسی انتقام کیوں لے گا میرا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا تو نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب کی کارکردگی کو ان لوگوں کی رائے کے تناظر میں نہ پرکھیں جو خود نیب کے ریڈار پر ہیں بلکہ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس دیکھیں جس میں نیب کی تعریف کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں نے نیب کے کنوکشن ریٹ، ریکوری، رجسٹریشن آف کیسز اور فیکٹم آف ڈیٹرنس کی تعریف کی۔

مزید پڑھیں: حقیقی اور جعلی تاجر کمیونٹی کے فرق کو سمجھنا ہوگا، نیب چیئرمین

چیئرمین نیب کے مطابق فیکٹم آف ڈیٹرنس سے مراد یہ کہ نیب نے ان افراد سے بھی پوچھ گچھ کی جن سے ماضی میں کسی کی یہ پوچھنے کی جرات نہیں تھی کہ 5 ہزار روپے کی جگہ 5 کروڑ روپے کیسے خرچ ہوئے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ایک ملک جہاں غربت ہے، وہ قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور معاشی مشکلات ہیں تو آپ پوچھتے ہیں کہ 100 ارب ڈالر کا قرض کہاں گیا تو اگر اس پوچھ گچھ کو جرم سمجھتے ہیں تو نیب کو عادی مجرم سمجھ لیں کیوں کہ یہ سلسلہ تو جاری رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں