برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ معطل کردیا

اپ ڈیٹ 21 نومبر 2019
اپریل 2018 میں17 پاکستانی مجرموں کو تھائی لینڈ سے وطن واپس لایا گیا تھا —فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز
اپریل 2018 میں17 پاکستانی مجرموں کو تھائی لینڈ سے وطن واپس لایا گیا تھا —فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز

اسلام آباد: حکومتِ برطانیہ نے وزارت قانون کی جانب سے کمزور درخواست اور ملک میں منشیات اسمگلروں کو دی جانے والی سزا کے باعث پاکستان کے ساتھ زیر حراست مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ معطل کردیا۔

قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی اور ترقی انسانی وسائل کے اجلاس میں وزارت خارجہ کے شعبہ اوورسیز پاکستانی کے ڈائریکٹر جنرل شوذاب عباس نے بتایا کہ ’چین انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے ساتھ مجرمان کے تبادلے کا معاہدہ کرنے سے گریزاں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ، پاکستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ جاری نہیں رکھنا چاہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت برطانیہ چاہتی ہے کہ جو منشیات اسمگلرز برطانیہ میں سزا ہونے کے بعد قید کاٹ رہے ہیں وہ پاکستان منتقلی کے بعد بھی اپنی سزا جیل میں پوری کریں اور پاکستان اسے معطل نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی 114 جیلوں میں گنجائش سے 19 ہزار قیدی زیادہ ہیں، محتسب

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ برطانوی حکومت اس صورت میں معاہدے کی بحالی پر غور کرے گی، جب حکومت پاکستان میں مجرموں کے لیے اسی سزا کے اطلاق پر رضامند ہوجائے گی جو برطانیہ میں دی جاتی ہے۔

شوذاب عباس نے اپریل 2018 کے ایک کیس کی مثال پیش کی، جس میں 17 پاکستانی مجرم تھائی لینڈ سے وطن واپس لائے گئے تھے۔

تاہم یہاں آکر تھائی لینڈ سے سزا یافتہ منشیات اسمگلروں نے پاکستانی قوانین کے تحت اپنی سزاؤں میں تخفیف کی درخواست دے دی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ان میں سے 8 مجرموں کو رہا کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی اورہندوستانی قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ

انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ تھائی لینڈ کے قانون کے مطابق منشیات کے کیس میں مجرم ثابت ہونے والے شخص کو 40 سال قید کی سزا ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں سزا کی مدت کا تعین منشیات کی مقدار پر کیا جاتا ہے اور سزاؤں کی مدت 10 سے 25 سال کے درمیان ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس تھائی لینڈ میں حراست میں لیے گئے 88 پاکستانیوں میں سے 60 کو منشیات کے جرم میں سزا ہوئی تھی۔

ان میں سے 48 قیدی پاکستانی جیلوں میں منتقلی کی شرائط پر پورا اترے، جن میں سے 17 مجرمان کو پہلے مرحلے میں پاکستان واپس لانے کے لیے پاکستان نے 35 ہزار ڈالر ادا کیے۔

یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کا تبادلہ

حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے وزارت داخلہ کو تجویز پیش کی ہے کہ قیدیوں کے لیے، جو سزا دیگر ریاستوں کی جانب سے دی جاتی ہے، اس پر مکمل عملدرآمد کروایا جائے۔


یہ خبر21 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں