قیدیوں کا تبادلہ

28 مارچ 2014
غیر عسکری قیدی ضرور رہا ہوں لیکن جنگجوؤں کو ریاستی معافی کے نام پر چھوٹنا نہیں چاہیے۔ 
فائل فوٹو۔۔۔۔
غیر عسکری قیدی ضرور رہا ہوں لیکن جنگجوؤں کو ریاستی معافی کے نام پر چھوٹنا نہیں چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

حکومت ۔ ٹی ٹی پی کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ بدھ کو ہوگیا، جو تفتیش و تحقیق سے بڑھ کر تھا، دونوں ایک دوسرے کو سُن سکتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق، جو چند ٹھوس معاملات زیرِ بحث آئے، ان میں عسکریت پسندوں کی طرف سے رواں ماہ کے اوائل میں کی گئی جنگ بندی میں توسیع اور ریاست و کالعدم تنظیم کے درمیان قیدیوں کا امکانی تبادلہ شامل ہے۔

اگرچہ حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی کی زیادہ تر شرائط سامنے آچکی ہیں، جن میں فاٹا سے فوج کا انخلا اور پاکستان پر ان کی تشریح کردہ شریعت کا نفاذ، جو کہ کُلّی طور پر ناقابلِ قبول ہے، شامل ہیں، تاہم عسکریت پسندوں نے مبینہ طور پر ریاست کی تحویل میں موجود 'غیرعسکری' افراد کی رہائی پر بھی زور دیا، جس پر دیکھا جاسکتا ہے۔

عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ تین سو کے لگ بھگ ان کی خواتین، بچے اور بزرگ سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں اور اطلاعات ہیں کہ ان کے ناموں کی فہرست حکومت کو دی جاچکی۔ حکومت کی طرف سے، مذاکرات کاروں نے باغیوں پر زور دیا کہ وہ اُن ہائی پروفائل مغویوں کو رہا کریں، جن سے متعلق یقین ہے کہ وہ انہیں یرغمال بنائے بیٹھے ہیں۔

ان مغویوں میں، سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹوں سمیت، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل ہیں۔

اس کا تو علم نہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں غیر عسکری قیدیوں کی موجودگی سے متعلق، ٹی ٹی پی کے دعوے میں کتنی صداقت ہے۔ مثال کےطور پر، فاٹا یا خیبر پختون خواہ سے لاپتا افراد کی فہرست میں اس طرح کے کسی بچے یا خاتون کا نام شامل نہیں اور نہ ہی عدالتوں نے اس طرح کے کسی لاپتا فرد کی بازیابی کے لیے کوئی احکامات دیے یا کوشش کی۔

فوج نے ان خواتین اور بچوں کے اپنی تحویل میں موجود ہونے کی تردید کی ہے تاہم یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ علی حیدر گیلانی، شہباز تاثیر اور وائس چانسلر اجمل خان کو ٹی ٹی پی یا ان کی کسی ذیلی تنظیم نے سودے بازی کی خاطر اغوا کیا، یہ اور بات کہ عسکریت پسندوں نے اب تک ان میں سے کسی بھی یرغمالی کے، اپنی تحویل میں ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

عسکریت پسندوں کو اپنے ارادے ثابت کرنے کے لیے ان قیدیوں کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر فوج نے بھی اپنے حراستی مراکز یا کسی اور مقام پر، خواتین اور بچوں کو تحویل میں رکھا ہوا ہے تو بلاشبہ انہیں بھی رہا کرنا چاہیے۔

اور جہاں تک عسکریت پسندوں کی طرف سے ان کے مسلح جنگجوؤں کی رہائی کے مطالبے کا تعلق ہے تو انسانی حقوق کے رہنما اصول بتاتے ہیں کہ غیرعسکری قیدی ضرور رہا ہونے چاہئیں لیکن ریاست کی تحویل میں موجود سخت گیر جنگجوؤں کو ہرحال میں قانون و انصاف کا سامنا کرنا چاہیے، انہیں کسی بھی معافی کے تحت چھوٹنا نہیں چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں