سائنسدانوں نے زندہ انسانوں میں 'سسپنڈڈ انیمیشن' (جسمانی درجہ حرارت کم کرنا) کا تجربہ پہلی بار کیا ہے۔

سسپنڈڈ انیمیشن بنیادی طور پرعارضی طور پر (مختصر یا طویل المدت) حیاتیاتی افعال کو سست یا روکنے کے عمل کو کہتے ہیں تاکہ نفسیاتی صلاحیتوں کو برقرار رکھا جاسکے۔

مگر انسانوں میں پہلی بار امریکی طبی ماہرین نے اس کا تجربہ کیا ہے تاکہ سرجنوں کو زندگی بچانے والے آپریشن کرنے کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔

اس طریقہ کار سے طبی ماہرین کو شدید زخمی افراد کے جسمانی درجہ حرارت میں کمی لاکر ان کی زندگی بچانے کے لیے زیادہ وقت مل سکے گا۔

اس طریقہ کار پر 2010 سے کام ہورہا تھا جس کا مقصد مریضوں کے جسم کو شدید چوٹوں جیسے گولی یا خنجر کے زخم پر جسم کو تیزی سے ٹحنڈا کیا جاسکے۔

عام طور پر گولی لگنے یا خنجر کے وار سے جسم کو پہنچنے والا جھٹکا بہت شدید ہوتا ہے کیونکہ خون بہت تیزی سے بہتا ہے جس سے مریض کارڈیک اریسٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس میں دل کی حرکت تھم جاتی ہے اور ڈاکٹروں کے پاس خون روکنے اور دھڑکن بحال کرنے کے لیے صرف چند منٹ ہوتے ہیں، مگر بچنے کا امکان محض 2 سے 5 فیصد ہوا ہے۔

اگر مریض بچ بھی جائے تو بھی زخموں کے باعث جسم میں آکسیجن کی کمی کے نتیجے میں دماغ کو مستقل نقصان پہنچ جاتا ہے۔

میری لینڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ماہرین کا کہنا تھا کہ جسم کا درجہ حرارت بہت تیزی سے کم کرنے یا induced hypothermia ایسے مریضوں کو بچانے کے لیے اضافی وقت فراہم کرسکتا ہے۔

اس تجربے کے دوران جسمانی درجہ حرارت کو 27 ڈگری سے گرا کر 10 ڈگری تک لایا گیا اور اس کے لیے بہت ٹھنڈے نمکین محلول کو خون سے تبدیل کیا گیا۔

اس کے پیچھے یہ خیال تھا کہ ایسا کرنے سے جسم کسی کمپیوٹر کی طرح 'اسٹینڈبائی' موڈ پر چلا جائے گا، میٹابولک پراسیس سس ہوجائے گا، خلیات کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت نہیں رہے گی تو ان کو نقصان بھی نہیں پہنچے گا، جب زخموں کا آپریشن ہوجائے گا تو جسم کو کسی کمپیوٹر کی طرح دوبارہ خون سے بھر کر ری اسٹارٹ کردیا جائے گا، جس سے کوئی طویل المعیاد مضر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

مگر سننے یا پڑھنے میں یہ سائنس فکشن خیال اتنا آسان نہیں بلکہ کرشماتی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

اب اس کا تجربہ پہلی بار زندہ مریض پر کرتے ہوئے اس کے جسم میں یہ ٹھنڈا سیال خون کی جگہ شامل کیا گیا۔

اس تجربے میں شامل مریض نے رضاکارانہ طور پر تحقیق میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی مگر اسے ہسپتال انتہائی نازک حالت میں لایا گیا تھا اور روایتی طریقہ علاج یعنی خون کی منتقلی یا سرجری سے بچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا تو سائنسدانوں نے ایسے ہی مریض کے جسم سسپنڈڈ انیمیشن کی حالت میں لاکر زیادہ وقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

محققین نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس تجربے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی یا نہیں، بس یہ بتایا کہ ایک مریض میں اس تینیک کو آزمایا گیا ہے۔

اس تجربے کے مکمل ہونے کی مدد دسمبر 2019 ہے اور مکمل نتائج 2020 کے اختتام تک سامنے آسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں