سنگین غداری کیس: مشرف نے فیصلہ محفوظ کرنے کا اقدام لاہورہائیکورٹ میں چینلج کردیا

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2019
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر کے وکیل کو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرانے کی مہلت دی ہے— تصویر: بشکریہ فیس بک
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر کے وکیل کو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرانے کی مہلت دی ہے— تصویر: بشکریہ فیس بک

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چینلج کردیا۔

واضح رہے گزشتہ سماعت میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر تک کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔

مزیدپڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس نذر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس کی سماعت کی تھی جہاں عدالت کے طلب کرنے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ بھی پیش ہوئے تھے۔ بعد ازاں سماعت کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا، جس پر سابق صدر کے وکیل کے توسط سے عدالت سے رجوع کرلیا۔

سابق صدر کی جانب سے ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

خواجہ طارق رحیم کی جانب سے استدعا کی گئی کہ لاہورہائیکورٹ خصوصی عدالت کو پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔

انہوں نے درخواست میں نشاندہی کی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہیں اور اسی وجہ سے خصوصی عدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کرسکے۔

علاوہ ازیں درخواست میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے ہدایت کی تھی کہ سابق صدر کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرواسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اس سے قبل 24 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت کو بتایا گیا تھا کہ حکومت نے پروسیکیوشن ٹیم کو معطل کردیا ہے تاہم عدالت کو پوری ٹیم معطل کرنے کی وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

ٹیم کی معطلی کی اطلاع نے استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق حسن کو بھی حیران کردیا تھا، جنہوں نے عدالت میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ابھی اس بات کا علم ہوا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا تھا کہ پروسیکیوشن کی جانب سے ستمبر 2014 میں تمام تر شواہد اور تحریری دلائل بھی عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں اور اس مرحلے پر کہ جب مقدمہ منطقی انجام کی جانب گامزن ہے کچھ خاص کارروائی باقی نہیں۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: حکومت نے استغاثہ کی ٹیم کو فارغ کردیا

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد رواں سال یہ معاملہ خصوصی عدالت میں زیرسماعت آیا تھا، جہاں 8 اکتوبر کو اس کیس کی 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم کیس میں اہم موڑ تب آیا تھا جب 25 اکتوبر کو موجودہ حکومت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے میں سرکاری پراسیکیوٹر (استغاثہ) کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا کیونکہ یہ ٹیم مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں بنائی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں