چین: سنکیانگ میں قیدیوں سے سلوک سے متعلق خفیہ رپورٹس میں انکشافات

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2019
رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد زیرحراست ہیں—فوٹو:بشکریہ آئی سی آئی جے
رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد زیرحراست ہیں—فوٹو:بشکریہ آئی سی آئی جے

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلٹس (آئی سی آئی جے) نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ کے نظر بندی کیمپوں میں قید ایغور مسلمانوں کے ساتھ سخت سلوک کیا جارہا ہے۔

آئی سی آئی جے کی رپورٹ کے مطابق ‘چائنا کیبلز سے آئی سی آئی جے کو موصول ہونے والی رپورٹس کی تصدیق خطے کے سیکیورٹی سربراہ نے کی ہے جس میں کیمپوں میں قید لاکھوں ایغور مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے اراکین کے ساتھ مینیوئل کی تفصیلات شامل ہیں’۔

رپورٹ کے مطابق ‘مینیوئل، جس کو ٹیلی گرام کہا جاتا ہے، میں کیمپوں کی انتظامیہ کو کیمپوں کے قیام کے حوالے سے راز کو برقرار رکھنے، جبری ذہن سازی، باغی سوچ کو قابو کرنے اور قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کب کروائی جائے اور یہاں تک کہ ٹوائلٹ کے استعمال جیسے معاملات پر ہدایات دی جاتی ہیں’۔

آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ ‘مینیوئل میں قید کے کم از کم دورانیے کا بھی انکشاف ہوا ہے جو کم از کم ایک سال ہے تاہم سابق قیدیوں کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو جلد بھی چھوڑا گیا تھا’۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ نظام لوگوں کی وسیع طور پر ذاتی معلومات حاصل کرنے کے قابل ہے جو چہرے کی شناخت کرنے والے کیمروں اور گرفتاری کے لیے امیدوار کی شناخت کرنے والے دیگر ذرائع پر مبنی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:ایغور مسلمانوں سے غیرانسانی سلوک، امریکا کا چین کی 28 کمپنیوں پر پابندی کا اعلان

چائنا کیبلز سے حاصل کی گئیں دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘موبائل فون کی معروف ایپس استعمال کرنے والے لاکھوں افراد کو تفتیش کے لیے نشان دہی بھی مختلف ذرائع کی جاتی ہے’۔

رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد زیرحراست ہیں—فوٹو:بشکریہ آئی سی آئی جے
رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد زیرحراست ہیں—فوٹو:بشکریہ آئی سی آئی جے

صحافیوں کی عالمی تفتیشی تنظیم نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ‘دستاویزات میں غیر ملکی شہریت رکھنے والے ایغور مسلمانوں، سنکیانگ سے باہر رہنے والے ایغور شہریوں اور بیرون ملک سے ڈی پورٹ کیے گئے ایغور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے حکام کی جانب سے جاری کیے گئے واضح احکامات بھی تفصیلات میں شامل ہیں’۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘گزشتہ دو برسوں کے دوران سابق قیدیوں کی تفصیلات کی بنیاد پر حاصل ہونے والی معلومات اور سیٹلائٹ تصاویر اور دیگر ذرائع سے حاصل رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ سنکیانگ میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کیمپوں میں 10 لاکھ یا اس سے زائد افراد موجود ہیں’۔

آئی سی آئی جے نے رپورٹس کی مصدقہ ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘آئی سی آئی سے 75 سے زائد صحافیوں اور 14 ممالک کے 17 میڈیا شراکت داروں نے مل کر دستاویزات اور اس کی اہمیت پر رپورٹ بنائی’۔

چین کی حکومت نے لیکس کے حوالے سے اپنے ردعمل میں آئی سی آئی جے کے شراکت دار 'دی گارجین' کو بتایا کہ ‘یہ دستاویزات مکمل طور پر من گھڑت اور جعلی ہیں’۔

مزید پڑھیں:چین کی حراستی کیمپ سے 2 ہزار قازق اقلیتی شہریوں کو رہا کرنے پر آمادگی

برطانیہ میں چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ‘سنکیانگ میں کوئی نظر بندی کیمپ نہیں ہے تاہم دہشت گردی سے بچنے کے لیے ٹریننگ اور آگاہی مراکز قائم کیے گئے ہیں’۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘سنکیانگ چین کا خوب صورت، پرامن اور مستحکم علاقہ ہے، تین سال قبل تک ایسا نہیں تھا کیونکہ 1990 سے 2016 کے دوران سنکیانگ میدان جنگ بنا ہوا تھا جہاں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات رونما ہوئے تھے اور ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے’۔

چینی سفارت خانے نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘سنکیانگ کے شہریوں کی آواز تھی کہ حکومت اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور جب سے اقدامات کیے گئے ہیں تو گزشتہ تین برسوں میں دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا’۔

یہ بھی پڑھیں:چین میں ایغور افراد کی قید کے خلاف بھارتی مسلمان سراپا احتجاج

سنکیانگ کے مراکز کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ ‘حفاظتی اقدامات کا مذہبی گروپوں کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ سنکیانگ میں مکمل طور پر مذہبی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے’۔

یاد رہے کہ رواں ماہ امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے چین میں ان کیمپوں کے حوالے سے خفیہ دستاویزات حاصل کی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کے لیے احکامات جاری کیے جاتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں