سرد موسم میں مونگ پھلی کو سامنے دیکھ کر کون ہوگا جو اپنے ہاتھ کو روک سکے گا۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ گری ان افراد کے لیے اچھا انتخاب ہے جو ذیابیطس یا ہائی بلڈ شوگر کے شکار ہوں؟

ذیابیطس کے مریضوں کو اپنا بلڈ شوگر لیول ایسا رکھنا ہوتا ہے کہ وہ اچانک اور بہت زیادہ بڑھ نہ سکے اور اسی وجہ سے انہیں اپنی غذا کے حوالے سے بہت احتیاط کرنی ہوتی ہے۔

مونگ پھلی گلیسمک انڈیکس اور گلیسمک لوڈ بہت کم ہے اور اس میں اہم غذائی اجزا ہوتے ہیں جو اسے اچھا انتخاب بناتے ہیں مگر کچھ ممکنہ خطرات بھی ہوسکتے ہیں۔

غذائیت

مونگ پھلی بنیادی طور پر گری نہیں بلکہ مٹر اور بیجوں کی نسل سے ہے اور اس کی خصوصات گریوں اور دالوں سے دونوں سے ملتی جلتی ہیں۔

متعدد شواہد سے ثابت ہوچکا ہے کہ گریاں اور دالیں کسی فرد کی صحت کے لیے بہترین انتخاب ہیں اور ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گریاں اور مونگ پھلی غذائی اجزا جیسے صحت بخش چکنائی، ویجیٹیبل پروٹین، فائبر، منرلز اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہیں۔

یہ اجزا ممکنہ طورپر خون کی شریانوں سے جڑے امراض اور امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور ورم وغیرہ کا خطرہ کم کرتے ہیں اور یہ سب امراض ذیابیطس کے مریضوں میں نظر آتے ہیں۔

بلڈ گلوکوز پر اثرات

یہ غذائی اجزا کے حوالے سے ہی فائدہ نہیں درحقیقت مونگ پھلی کھانے سے بلڈ گلوکوز کی سطح پر کم اثر مرتب ہوتا ہے، گلیسمک انڈیکس یا جی آئی سے مراد غذاﺅں کا تعین کرنا ہے کہ وہ کتنی جلدی بلڈ شوگر لیول میں اضافہ کرتی ہیں۔

تو کم جی آئی اسکور والی غذائیں سست روی اور مستحکم انداز سے شکر میں تبدیل ہوتی ہیں جبکہ زیادہ جی آئی اسکور والی غذائیں بہت تیزی سے گلوکوز کو دوران خون میں خارج کرتی ہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں کو اس حوالے سے خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جی آئی اسکور جو صفر سے 100 کے درمیان ہوتا ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس غذا کو ہضم کرنے کے لیے کتنی انسولین کی ضرورت ہوسکتی ہے اور وہ کیا کچھ کھا سکتے ہیں۔

صفر جی آئی اسکور والی اشیا جیسے پانی بلڈ شوگر کو متاثر نہیں کرتیں جبکہ 100 اسکور والی غذا خالص گلوکوز ہوتی ہے۔

ایک اور عام پیمانہ گلیسمک لوڈ یا جی ایل ہے، جس میں غذا میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار اور جی آئی اسکور کو مدنظر رکھا جاتا ہے، 10 یا اسے کم اسکور والی غذاﺅں کا اثر بھی شوگر کی سطح پر کم ہوتا ہے۔

مونگ پھلی کا جی آئی اسکور صرف 14 جبکہ جی ایل اسکور ایک ہے، جو اسے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس موسم میں اچھا انتخاب بناتا ہے۔

مزید پڑھیں : کیا ذیابیطس کے مریض گڑ کھا سکتے ہیں؟

مونگ پھلی اور دل کی صحت

خون کی شریانوں سے جڑے امراض ذیابیطس کے مریضوں میں عام پیچیدگیوں میں سے ایک ہے اور مریضوں کو ایسی غذاﺅں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو نہ صرف بلڈشوگر لیول کو کنٹرول میں رکھیں بلکہ فالج اور امراض قلب کا خطرہ بھی کم کریں۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق مونگ پھلی میں موجود منرلز اور فائبر دل کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں، جو بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لانے میں مدد دیتے ہیں اور فائبر سے پیٹ دیر تک بھرا رہتا ہے اور یہ جز بلڈ شوگر لیول کو بھی کم کرتا ہے، یہ سب ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہم عناصر ہیں۔

آسان الفاظ میں ایسی کوئی بھی غذا جو دل کو تحفظ فراہم کرے وہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

فائبر

امریکن ڈائیبیٹس ایسوسی ایشن ذیابیطس کے مریضوں کو ایسی غذاﺅں کے استعمال کا مشورہ دیتی ہے جس میں فائبر موجود ہو کیونکہ یہ غذائی جز کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے، پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھتا ہے اور بے وقت کھانے کی خواہش پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے جبکہ گلوکوز کے جذب کرنے کی شرح سست یا کم کردیتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ فائبر کا استعمال ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ 20 سے 30 فیصد تک کم کردیتا ہے، خواتین کو دن بھر میں 25 گرام سے زائد جبکہ مردوں کو 38 گرام سے زائد فائبر استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

اومیگا سکس فیٹی ایسڈز

مونگ پھلی میں اومیگا سکس فیٹی ایسڈز کی مقدار دیگر گریوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اومیگا سکس آئل کی زیادہ مقدار جسم میں ورم کا باعث بن سکتی ہے، ذیابیطس کے مریضوں میں یہ ورم وقت کے ساتھ بدتر ہوسکتا ہے۔

مگر کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ دیا گیا کہ اومیگا سکس فیٹی ایسڈز سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ کم بھی ہوسکتا ہے۔

تاہم طبی ماہرین کے مطابق جو لوگ مونگ پھلی کو روزانہ کھاتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز والی غذائیں جیسے اخروٹ اور مچھلی کے تیل کا استعمال بھی عادت بنالیں۔

جسمانی وزن میں کمی

مونگ پھلی میں چکنائی اور کیلوریز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق اعتدال میں رہ کر انہیں کھانا جسمانی وزن میں کمی لانے یا جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنے میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے مریض اگر مونگ پھلی کو اپنے غذائی معمول میں شامل کرلیں تو وہ جسم کو ملنے والے غذائی اجزا کی سطح کو بہتر بناسکتے ہیں۔

احتیاط

یقیناً ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مونگ پھلی ایک اچھا انتخاب ہے مگر کچھ خطرات یا احتیاطی تدابیر کو بھی مدنظر رکھیں۔

الرجی: کچھ افراد میں مونگ پھلی کے استعمال سے الرجی سامنے آتی ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، اپنی غذا میں مونگ پھلی کے اضافے سے قبل اس بات کو یقینی بنالیں کہ آپ کو مونگ پھلی سے الرجی تو نہیں۔

نمکیات اور دیگر اضافے: نمک، چینی اور دیگر فلیور والی سپر مارکیٹ میں ملنے والی مونگ پھلی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے صحت بخش کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، تو بہتر ہے کہ عام ٹھیلوں پر ملنے والی یعنی چھلکوں والی مونگ پھلی کا ہی انتخاب کریں۔

اعتدال میں کھائیں: 28 گرام مونگ پھلی میں 161 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سپراسٹورز میں ملنے والی گریوں میں یہ مقدار اس بھی زیادہ ہوتی ہے، اس کے علاوہ کاربوہائیڈریٹس بھی موجود ہوتے ہیں تو اس حوالے سے اعتدال میں رہ کر کھانا ہی بہتر ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں