منشیات کیس: رانا ثنااللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں پھر 14روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2019
رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا— فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا— فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی انسداد منشیات کی عدالت نے منشیات کیس میں گرفتار سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں ایک مرتبہ پھر 14 روز کی توسیع کردی۔

واضح رہے کہ رانا ثنااللہ کو جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے پر جیل حکام نے انسداد منشیات کی عدالت میں پیش کیا تھا، تاہم انسداد منشیات کی عدالت میں صحافیوں کو ایک بار پھر داخلے سے روک دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے نائب کورٹ اینٹی نارکوٹکس فورس(اے این ایف) نے کہا کہ جج شاکر حسن نے میڈیا کے نمائندوں کو کمرہ عدالت میں داخلے سے روکا، ان کی اجازت کے بغیر میڈیا کے نمائندے کمرہ عدالت میں نہیں جاسکتے۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ کی پیشی پر کمرہ عدالت کے باہر شدید بدنظمی ہوئی اور پولیس کی جانب سے کارکنوں اور وکلا پر تشدد بھی کیا گیا۔

مزید پڑھیں: رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کیلئے انسداد منشیات عدالت سے رجوع کرلیا

پولیس نے کمرہ عدالت کے باہر میگافون کا استعمال کیا اور رانا ثنااللہ کو میڈیا سے گفتگو سے روکنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی حکمت عملی ترتیب دی۔

تاہم رانا ثنااللہ کے وکلا نے پولیس کی بدنظمی اور میڈیا کے داخلے پر پابندی پر عدالت کا بائیکاٹ کردیا۔

اس حوالے سے ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے عدالت میں احتجاج ریکارڈ کروایا جبکہ طاہر خلیل سندھو نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے مجھ سمیت وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

بعدازاں انسداد منشیات کی عدالت نے کیس کی سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں ایک مرتبہ پھر توسیع کردی۔

عدالت کے باہر رانا ثنا اللہ کے وکیل سید زاہد بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'کھلی عدالت ہے وکلا زیادہ سے زیادہ 30 یا 35 ہوں گے تاہم عدالت کے باہر 2500 پولیس اہلکار و افسر تعینات کیے گئے، پولیس والوں کو کیا خوف ہے؟ ہم ڈکیت ہیں؟ ہم بم لیکر آ رہے ہیں؟'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں وکلا پر تشدد کیا گیا ہے، وکلاء کی توہین کی گئی ہے، یہ کھلی عدالت ہے، پولیس کو کیا حق ہے وہ کسی کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روکے؟'۔

انہوں نے کہا کہ 'رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمہ جھوٹا اور فرضی کہانی پر مبنی ہے اس لیے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ عوام کو اس مقدمہ کی حقیقت پتہ چلے'۔

رانا ثنااللہ کی گرفتاری

رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اس گرفتاری کے پیچھے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ ہونے کا الزام لگایا تھا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست بھی دائر کی تھی، تاہم ان کی یہ درخواست مسترد ہوگئی تھی، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں