’خصوصی عدالت مشرف کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی پابند ہے‘

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019
ہائی کورٹس کے 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت 1976 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
ہائی کورٹس کے 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت 1976 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے خصوصی عدالت کو سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ خصوصی عدالت میں 3 ہائیکورٹس کے ججز ہیں، وہ اس کےفیصلے کی پابند ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خصوصی عدالت کا بینچ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل ہے۔

قبل ازیں 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل فل بینچ نے وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کی درخواستوں پر خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا

اس کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہدایت کی تھی کہ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کو وکیل دفاع کی حیثیت سے پیش ہونے کی اجازت دے۔

جس کے بعد 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں خصوصی عدالت نے کہا تھا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’غیر معمولی صورتحال تشکیل دینے والی ان درخواستوں کی سماعت میں یہ بات سامنے آئی کہ ہائی کورٹس کے 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت 1976 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا جبکہ خصوصی عدالت کا قیام 1976 کے ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا اور اس کے معزز جج ہائی کورٹس کے ججز کی حیثیت سے بینچ میں نہیں بیٹھتے بلکہ اگست میں سپریم کورٹ کی جانب سے وضع کردہ قانون کے تحت ان کی شخصی نامزدگی ہوتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ ’1976 ایکٹ [قانون برائے ترمیمِ مجرمانہ قوانین(خصوصی عدالت)] کے سرسری مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ وفاقی حکومت اور پروسیکیوشن کا اس میں مرکزی کردار ہے'۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 1976 ایکٹ کے تحت مقدمے کی کارروائی آغاز سے لے کے اختتام تک وفاقی حکومت کے مقرر کردہ استغاثہ پر منحصر ہے، لہٰذا خصوصی عدالت مقررہ پراسیکیوٹر کو سماعت کا مناسب موقع دیے بغیر فیصلہ نہیں سنا سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست پر سیکریٹری قانون طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق 1976 کا ایکٹ مجموعی طور پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مقدمے کی کارروائی مکمل طور پر پروسیکیشن پر انحصار کرتی ہے اور اس کی غیر حاضری میں یا اسے سنے بغیر فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔

سنگین غداری کیس

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔

تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: سنگین غداری کا فیصلہ روکنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

جس پر 27 نومبر کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

بعدازاں 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 5 دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی روزانہ بنیادوں پر سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں