سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019
صدر مملکت نے قاضی فائز عیسیٰ   کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا— فائل فوٹو:ڈان نیوز
صدر مملکت نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا— فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل نے عدالت سے ججز کی خفیہ نگرانی کرنے کے مجرمان کے خلاف تحقیقات کا حکم دینے کی درخواست کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ’ سپریم کورٹ کو ایسے سلوک کو منظور نہ کرکے واضح پیغام دینا چاہیے اور اس طریقے سے جمع کیے گئے مواد کو مسترد کرنا چاہیے‘۔

فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ وہ ’خفیہ نگرانی‘ کی اصطلاح دانستہ طور پر استعمال کررہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کس طریقے سے اور کس حد تک ان کے موکل (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ) اور ان کے اہلِ خانہ کی نگرانی کی گئی یا ان کی ای میلز ہیک گئی یا نقل و حرکت پر نظر رکھی گئی۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پاناما پیپرز کے ماڈل پر مبنی ہے، وکیل

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی پرائیویسی میں مداخلت کا ہمیشہ عدلیہ کی آزادی پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس عمل سے عدلیہ پر عام آدمی کا اعتماد کا ختم ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ کسی شہری کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک جج یہ جاننے کے بعد کہ اس کی مخبری ہورہی تھی وہ بلا خوف و خطر اپنا کام کرنے کے قابل رہے گا۔

منیر ملک نے کہا کہ ’ قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے والے کسی بھی شخص کے اعتماد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا جب وہ متعلقہ جج کے سامنے پیش ہوگا‘۔

نگرانی کتنا سنگین جرم ہے اس حوالے سے وکیل منیر اے ملک نے 1998 میں بینظیر بھٹو کی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور 2010 میں افتخار محمد چوہدری کے کیسز کا حوالہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا کوئی ادارہ ٹیکس افسر سے ریکارڈ طلب نہیں کرسکتا، وکیل جسٹس عیسیٰ

وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ بینظیر بھٹو کے کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ججوں کی خفیہ نگرانی، بشمول ٹیلیفون ٹیپ کرنا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے چھپ کر باتیں سننا اس وقت حکومت تحلیل کرنے کے لیے کافی تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ سپریم کورٹ کے ججز اور سیاسی رہنماؤں کے ٹیلیفون ٹیپ کیے جاتے تھے اور یہ اس وقت کی وزیراعظم کے علم میں تھا کیونکہ روزانہ سیل کیے گئے لفافوں میں انہیں ریکارڈ بھیجا جاتا تھا۔

تاہم بینظیر بھٹو نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود بھی ٹیلیفون ٹیپنگ کا نشانہ بنیں تھیں یہاں تک کہ انہوں نے اس وقت کے صدر سے بھی شکایت کی تھی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اس وقت عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ بگنگ ڈیوائسز نصب کرنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ ٹیپنگ اور خفیہ طریقے سے بات چیت سننا بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے لیے کافی تھے، انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھے گئے اور یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: قوانین آرڈیننس سے بنانے ہیں تو پارلیمان کو بند کردیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

منیر اے ملک نے بتایا کہ افتخار چوہدری کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ایک درخواست دی گئی تھی جس میں خفیہ معلومات اور ان کے اہلِ خانہ کی تصاویر تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ ان تصاویر کا مقصد ان ججز کو بھی اسکینڈلائز کرنا تھا جو کیس میں فریق نہیں تھے‘۔

وکیل نے کہا کہ دستاویزات کے ذرائع نامعلوم تھے لہٰذا عدالت نے اس وقت کے اٹارنی جنرل اور مرحوم شریف الدین پیرزادہ کو اس پر روشنی ڈالنے کا کہا تھا لیکن دونوں نے جواب دیا تھا کہ انہیں بھی اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا۔

دورانِ سماعت جسٹس سید منصور علی شاہ نے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسا قانون موجود ہے جو قومی مفاد میں فون ٹیپنگ کی اجازت دے۔

جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے کیس میں سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی کہ وہ تعین کرے قومی مفاد کیا ہے اور اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہیئیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا کسی اور ملک میں اس حوالے سے کوئی قانون موجود ہے جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ امریکا میں حکام کی اجازت سے کچھ حد تک وائر ٹیپنگ کی اجازت موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قومی احتساب آرڈیننس میں مشتبہ شخص کی نگرانی سے متعلق موجود ہے لیکن چیئرمین نیب کو متعلقہ ہائی کورٹ سے اجازت طلب کرنی پڑتی ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت گزار عبدالوحید ڈوگر کو جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ہسپانوی نام سے متعلق کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن ان کے اور بچوں کے نام پر موجود آف شور جائیدادوں کا پتہ لگانے کے لیے کوشش کی گئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں