وزیراعظم نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے 3 نام تجویز کردیے

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019
اس سے قبل قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نےاس عہدے کے لیے نام تجویز کیے تھے—تصویر: فیس بک
اس سے قبل قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نےاس عہدے کے لیے نام تجویز کیے تھے—تصویر: فیس بک

وزیر اعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے 3 شخصیات کے ناموں کی تجویزدے دی۔

خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سردار محمد رضا 6 دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔

وزیراعظم کی جانب سے اس عہدے پر تعیناتی کے لیے بابر یعقوب، فضل عباس مکین اورعارف خان کے نام تجویز کیے گئے۔

اس ضمن میں دفتر وزیراعظم کے ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے تینوں ناموں کو تجویز کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، اپوزیشن کا سپریم کورٹ سے رجوع

واضح رہے کہ بابر یعقوب فتح محمد اس وقت سیکریٹری الیکشن کمیشن کے عہدے پر کام کر رہے ہیں جبکہ فضل عباس مکین بھی سابق سیکریٹری کے طور پر مختلف وزارتوں میں کام کر چکے ہیں، تجویز کردہ تیسری شخصیت عارف خان چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے عہدے پر تعینات ہیں۔

اپوزیشن لیڈر کے تجویز کردہ نام

اس سے قبل قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم کو ایک خط ارسال کر کے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے نام تجویز کیے تھے۔

انہوں نے وزیراعظم کو ارسال کیے گئے خط میں الیکشن کمشنر کے لیے ناصر سعید کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام کی تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ 'میری دانست میں یہ ممتاز شخصیات اس منصب کے لیے نہایت مناسب اور اہل ہیں لہٰذا آپ بغیر کسی مزید تاخیر کے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کے لیے یہ 3 نام زیر غور لائیں'۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف نے الیکشن کمیشن عہدیداران کے نام وزیراعظم کو ارسال کردیے

اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا تھا کہ 6 دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی 5 سالہ آئینی مدت مکمل ہورہی ہے اور الیکشن کمیشن کے 2 ارکان کے مناصب بھی تاحال خالی ہیں جبکہ الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن 3 کے تحت الیکشن کمیشن کا بینچ کم ازکم 3 اراکین پر مشتمل ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ آئین کی دفعہ 213 کی شق نمبر 2 حصہ الف کے تحت وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر یا سماعت کے لیے نام بھجواتا ہے۔

اس کے علاوہ شہباز شریف نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو بھی خط ارسال کیا تھا۔

متحدہ اپوزیشن کا سپریم کورٹ سے رجوع

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سمیت متحدہ اپوزیشن نے گزشتہ روز (4 دسمبر کو) چیف الیکشن کمشنر اور سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری کے معاملے پر حکومتی کمیٹی سے عدم اتفاق کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے 2 ارکان بھی ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، جن کی تعیناتی کے لیے بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے الیکشن کمیشن اراکین کے لیے 3،3 نام تجویز کردیئے

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ‘5 دسمبر 2019 کو چیف الیکشن کمشنر کی معیاد ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر فعال ہوجائے گا جس کے باعث ملک کا پورا انتخابی نظام رک جائے گا’۔

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ ‘اراکین اور الیکشن کمشنر کی تقرری پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئین کا آرٹیکل 213 خاموش ہے جو ملک میں آئینی بحران کا باعث ہوگا’۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘اراکین و چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے پر اتفاق رائے یا مسئلے کے حل کے لیے آئینی ترمیم میں ناکامی پر واحد حل معزز عدالت سے رجوع تھا’۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ ‘2 اراکین کی مدت 26 جنوری 2019 ختم ہوگئی تھی لیکن الیکشن کمیشن اب تک فعال ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر اور دو اراکین موجود تھے لیکن مستقبل قریب میں حالات بالکل مختلف ہوں گے’۔

متحدہ اپوزیشن نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ ‘مذکورہ حالات کے پیش نظر عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ آئینی بحران کے خاتمے کے لیے مناسب حکم جاری کرے جو چیف الیکشن کمشنر کی مدت ختم ہوتے ہی 5 دسمبر 2019 کے بعد پیش آئے گا’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں