افغان عوام کی مدد کیلئے زندگی وقف کرنے والے جاپانی ڈاکٹر حملے میں ہلاک

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019
ٹیٹسو ناکامورا دہائیوں سے جاپان میں اپنے امدادی کاموں کے حوالے سے مشہور تھے—تصویر: اے ایف پی
ٹیٹسو ناکامورا دہائیوں سے جاپان میں اپنے امدادی کاموں کے حوالے سے مشہور تھے—تصویر: اے ایف پی
سفید پک اپ کی کھڑکی کو فائرنگ سے نقصان پہنچایا گیا —تصویر: رائٹرز
سفید پک اپ کی کھڑکی کو فائرنگ سے نقصان پہنچایا گیا —تصویر: رائٹرز

کابل: افغانستان کے مفلوک الحال عوام کی مدد کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والے بزرگ جاپانی ڈاکٹر 6 افراد سمیت ایک حملے میں ہلاک ہوگئے۔

برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ حملہ افغانستان کے صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ہوا جو حال ہی میں امدادی رضاکاروں پر ہونے والا دوسرا مہلک ترین حملہ تھا اور بین الاقوامی سطح کے ساتھ ساتھ افغانستان سے بھی اس پر ردِعمل دیا گیا۔

73 سالہ ٹیٹسو ناکامورا پیس جاپان میڈیکل سروسز (پشاور کئی نامی تنظیم) کے سربراہ تھے اور اس خطے میں 1980 سے اس وقت سے مصروف عمل تھے جب انہوں نے پاکستان کے شہر پشاور اور مضافات میں جذام کے مریضوں کا علاج شروع کیا تھا۔

ان کی ہلاکت پر افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان عطا اللہ خوگیانی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ٹیٹسو ناکامورا افغانستان کے قریبی دوست تھے، جنہوں نے اپنی زندگی ہمارے لوگوں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے وقف کردی تھی‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں رواں برس شہری ہلاکتوں میں 3 گُنا اضافہ، رپورٹ

ترجمان نے مزید بتایا کہ حملے میں جاپانی ڈاکٹر کے ساتھ ہلاک ہونے والوں میں ان کے سیکیورٹی گارڈز، ڈرائیور اور ایک ساتھی شامل تھے۔

رپورٹس کے مطابق کچھ روز قبل کابل میں ایک بم دھماکے میں اقوامِ متحدہ کے ایک امدادی رضاکار کی ہلاکت کے بعد امدادی تنظیموں کو ہائی الرٹ کردیا گیا تھا۔

24 نومبر کو افغانستان میں اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام سے منسلک انیل راج اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بدھ کے روز ہوئے اس حملے میں جاپانی ڈاکٹر کی ہلاکت پر افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے معاون مشن نے ایک بیان میں شدید جذباتی ردِ عمل کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: افغان صدارتی انتخاب کے دوران 85 شہری جاں بحق ہوئے، اقوام متحدہ

بیان میں کہا گیا کہ ’یہ ایک ایسے شخص کے خلاف تشدد کا بے حس عمل تھا جس نے اپنی زندگی افغانستان کے کمزور عوام کی مدد کے لیے وقف کردی‘۔

واقعے کے بارے میں ٹیٹسو ناکامورا کے ادارے سے منسلک ایک عہدیدار مٹسوجی فُکوموٹو کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کے حملے کے پیچھے کیا وجہ تھی یہ صرف ڈکیتی کا واقعہ تھا یا مفادات کے تصادم کا نتیجہ‘ تھا۔

واقعے کے بارے میں جلال آباد کے ایک رہائشی نے بتایا کہ اس نے صبح 8 بجے فائرنگ کی آواز سنی اور دیکھا کہ مسلح افراد ایک جاپانی اور ان کے سیکیورٹی گارڈ پر حملہ کررہے تھے اور پھر ایک پتلی گلی سے فرار ہوگئے‘۔

جائے وقوع کی دستیاب تصاویر میں ایک بڑے کیبن پر مشتمل سفید رنگ کی پک اپ دیکھی جاسکتی تھی جس کی ایک جانب کی کھڑکی کو فائرنگ کرکے نقصان پہنچا تھا جبکہ ونڈ اسکرین پر گولیوں کے 3 نشان تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: جولائی میں شہریوں کی ریکارڈ ہلاکتیں ہوئیں، اقوام متحدہ

دوسری جانب طالبان نے مذکورہ واقعے کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس تنظیم سے اچھے تعلقات تھے جو افغانستان میں بحالی کے کاموں میں حصہ لے رہی تھی۔

ٹیسٹو ناکامورا کون تھے؟

ٹیٹسو ناکامورا دہائیوں سے جاپان میں اپنے امدادی کاموں کے حوالے سے مشہور تھے۔

ان کے ساتھیوں نے پشاور میں کئی نامور تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 1984 سے افغانستان اور پاکستان میں مقیم تھے اور کام کررہے تھے۔

سال 2003 میں انہیں فلپائن کے ’رامون میگسیسے ایوارڈ برائے امن اور بین الاقوامی خدمات‘ سے نوازا گیا تھا جسے ایشیا کا نوبل انعام بھی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: ’افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں زیادہ شہری جاں بحق ہوئے‘

پشتون لباس کے دلدادہ ناکامورا 2001 میں طالبان حکومت کے خلاف امریکی سربراہی میں شروع کی گئی افغان جنگ کے پُرزور مخالف تھے اور طالبان کو اہل منتظمین سمجھتے تھے۔

اپنی ویب سائٹ پر ایک تحریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اس جواز سے بے وقوف نہیں بنتا کہ جمہوریت اور جدیدت کے حصول کے لیے تشدد کا راستہ اپنانا ضروری ہے اور انسانیت کے لیے حقیقی خوشی تشدد یا پیسے کے ذریعے نہیں بلکہ انسانی احساس کے ذریعے سمجھنی چاہیے‘۔

ویب سائٹ پر انہوں نے اپنی تنظیم کے منصوبوں کے ذریعے افغان شہریوں کی مدد کے متعدد منصوبوں کی معلومات بھی فراہم کر رکھی تھی جس میں آب پاشی کے لیے نہروں اور کنووں کی تعمیر اور طبی خدمات شامل ہیں۔

اکثر پشتون لباس میں پائے جانے والی ٹیٹسو ناکامورا 1984 میں جذام کے مریض افغان مہاجرین کا علاج کرنے پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں آئے تھے۔


یہ خبر 5 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں