’آئین منسوخ کرنا اور ایمرجنسی لگانا دو مختلف چیزیں ہیں‘

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2019
اٹارنی جنرل پرویز مشرف کے وکیل رہے ہیں وہ اس کیس میں نہیں آئیں گے—فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ وب سائٹ
اٹارنی جنرل پرویز مشرف کے وکیل رہے ہیں وہ اس کیس میں نہیں آئیں گے—فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ وب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی جانب سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر سماعت کی، اس سے قبل 3 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔

سماعت میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف کیس کے مقدمے کا ریکارڈ آگیا ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق اے خان نے عدالت کو بتایا کہ جی مقدمے کا ریکارڈ آ گیا ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ عدالت کا سوال ہے کہ آئین کا آرٹیکل 6 کہاں لاگو ہوتا ہے کیا ایمرجنسی لگانا اور آئین توڑنا دو علیحدہ چیزیں نہیں ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: مجھے سنا نہیں جارہا، میرے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، پرویز مشرف کا ہسپتال سے پیغام

ساتھ ہی عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 3 نومبر 2007 کو حکومت بھی موجود نہیں تھی اور آئین بھی موجود نہیں تھا اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا لکھا ہے؟

جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں وفاقی حکومت سے ایکشن لینے کی استدعا کی گئی تھی جبکہ اس حوالے سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس میں لکھا تھا کہ وزیراعظم کے حکم پر کارروائی کا آغاز ہوگا۔

وکیل کے جواب پر عدالت نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل کب اس کیس میں آئیں گے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل پرویز مشرف کے وکیل رہے ہیں وہ اس کیس میں نہیں آئیں گے۔

وکیل نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف انکوائری اور کارروائی کا آغاز اس وقت کے وزیر اعظم کے کہنے پر کیا گیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے اقدام سے نواز شریف براہ راست متاثر ہوئے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاق سے ریکارڈ طلب کرلیا

سماعت کے دوران وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت نے کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی لہٰذا نوٹیفکیشن بھی وفاقی حکومت کے نام سے ہونا چاہیے تھا۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر اس وقت کی حکومت نے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کر لیا تھا تو انویسٹی گیشن کی کیا ضرورت تھی۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے انکوائری ہوتی پھر انوسٹی گیشن ہوتی جو نہیں ہوئی اور جلدی جلدی میں سب کچھ شروع ہوا۔

سماعت کے دوران عدالت نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت اس شکایت کو واپس نہیں لے سکتی؟ جس پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ مشکل ہے کیوں کہ کیس آخری مراحل میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: سنگین غداری کا فیصلہ روکنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیوں مشکل ہے، اگر ایک چیز کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو اس پر بننے والی چیز کی کیا حیثیت ہو گی، آئین منسوخ کرنا اور ایمرجنسی لگانا دو مختلف چیزیں ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 6 وہاں لگتا ہے جہاں آئین توڑا گیا ہو، آپ سیکریٹری داخلہ سے مشورہ کر لیں یا ہم انہیں بلا لیتے ہیں۔

بعدازاں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

سنگین غداری کیس

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کی درخواست دائر کی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے تھے لیکن عدالت کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے، بعد ازاں بیماری کو جواز بناتے ہوئے ملک سے باہر چلے گئے تھے اور واپس وطن نہیں لوٹے۔

مزید پڑھیں:پرویز مشرف خرابی صحت کے باعث دبئی کے ہسپتال میں زیر علاج

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔

تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے باز رکھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت پر عدالت نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا البتہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں