گجرات مسلم کش فسادات: بھارتی کمیشن نے مودی کو کلین چٹ دےدی

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019
کمیشن نے بڑے پیمانے پر منظم سازش کے امکان بھی مسترد کردیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
کمیشن نے بڑے پیمانے پر منظم سازش کے امکان بھی مسترد کردیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

نئی دہلی: بھارتی ناناوتی مہتا کمیشن نے 2002 میں گجرات مسلم کش فسادات میں وزیراعظم نریندر مودی اور ریاستی انتظامیہ کو تمام الزامات کی ذمہ داری سے بری قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ گجرات فسادات بھارتی تاریخ کے بدترین فسادات میں سے ایک تھے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیشن نے ریاستی انتظامیہ، وزرا اور پولیس افسران کا براہ راست یا بالواسطہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزام کو بھی مسترد کردیا اور انہیں بری الذمہ قرار دیا۔

مزیدپڑھیں: گجرات فسادات: گینگ ریپ کی متاثرہ مسلم خاتون نے قانونی جنگ جیت لی

تحقیقاتی کمیشن نے اس امکان کو بھی مسترد کردیا کہ گجرات میں مسلم کش فسادات بڑے پیمانے پر منظم سازش کے ذریعے کیے گئے۔

کمیشن نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کو 'پہلے سے طے شدہ سازش' یا 'منظم تشدد' کا نتیجہ قرار دینے سے بھی انکار کردیا۔

9 جلد اور 15 سو صفحات پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان حملوں میں ریاست یا کسی وزیر کو اکسایا یا ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو'۔

خیال رہے کہ گجرات فسادات پر واشنگٹن نے نریندرمودی کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی تاہم وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی یہ پابندی ختم کردی گئی تھی۔

تاہم سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جی ٹی ناناوتی اور گجرات ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس اکشے مہتا پر مشتمل پینل نے کمیشن کی رپورٹ میں کہا کہ بعض جگہوں پر پولیس 'اپنی ناکافی تعداد کی وجہ سے مشتعل ہجوم پر قابو پانے میں غیرموثر رہی'۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات فسادات:نریندرمودی کےخلاف درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے منظور

واضح رہے کہ کمیشن کی رپورٹ وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجا نے قانون ساز اسمبلی میں پیش کی۔

مذکورہ رپورٹ اس وقت کی حکومت نے 5 برس میں جاری کی تھی۔

احمد آباد شہر میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں ایک سابق پارلیمنٹیرین احسان جعفری بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا 'پولیس نے ہجوم کے تشدد پر قابو پانے کے لیے اپنی اہلیت اور قابلیت کا مظاہرہ نہیں کیا جو ضروری تھا'۔

خیال رہے کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں کم از کم ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

رپورٹ کے مطابق 'تمام امور کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ گودھرا ٹرین حادثے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات اصل وجہ بنے'۔

مزیدپڑھیں: گجرات فسادات ٹرائل:گینگ ریپ کیس میں پولیس افسران،ڈاکٹرز مجرم قرار

کمیشن نے گودھرا ٹرین میں آتشزدگی کے واقعے کو فسادات کا محرک قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'گودھرا واقعہ کی وجہ سے ہندو برادری کے بڑے طبقات بہت ناراض ہوئے اور بالآخر مسلمانوں اور ان کی املاک پر پرتشدد حملوں میں ملوث ہوئے'۔

کمیشن کے مطابق 'گجرات مسلم کش فسادات اور تشدد میں کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت یا تنظیموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا'۔

رپورٹ کے مطابق 'صرف ایک بات جو کچھ یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں پیش آنے والے خونریز واقعات میں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے مقامی ممبران نے حصہ لیا'۔

کمیشن نے 3 سابق آئی پی ایس افسران سنجیو بھٹ، راہول شرما اور آر بی سریکومر کے کردار پر سوال اٹھائے جنہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ فسادات میں حکومت کا کردار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شواہد کی چھان بین کے بعد یہ کہنا ممکن نہیں کہ پولیس کی جانب سے کوئی غفلت برتی گئی۔

مزید پڑھیں: گجرات میں ہندو مسلم فساد، 200 سے زائد گرفتاریاں

علاوہ ازیں 17 جون 2016 کو ریاست گجرات میں خصوصی عدالت نے گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں مجرم قرار دیے گئے 24 افراد میں سے 11 کو عمر قید کی سزا سنادی۔

28 فروری 2002 میں ہندو انتہا پسندوں نے ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں مسلمانوں کے رہائشی علاقے گلبرگ سوسائٹی پر حملہ کردیا تھا۔

23 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے گجرات حکومت کو مسلم کش فسادات کی ایک متاثرہ خاتون بلقیس یعقوب رسول بانو کو سرکاری ملازمت، 50 لاکھ روپے اور پسند کی جگہ پر گھر فراہم کرنے کا حکم سنایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں