خیبرپختونخوا میں بینکوں سے 20 ارب روپے کے غیر قانونی لین دین کا انکشاف

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2019
رقم کی منتقلی کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے لیے دولت کو اِدھر سے اُدھر بھیجنا تھا—تصویر: اے ایف پی
رقم کی منتقلی کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے لیے دولت کو اِدھر سے اُدھر بھیجنا تھا—تصویر: اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے کراچی میں موجود شعبہ تفتیش اور انٹیلیجنس نے خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں بینک اکاؤنٹس میں بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے غیر قانونی طریقے سے 20 ارب روپے منتقل کرنے اور نکالنے کے اسکینڈل سے پردہ اٹھادیا۔

ٹیکس چوری کی رقم مالاکنڈ ڈویژن میں ہی بٹخیلہ، بونیر اور سوات کے علاقوں میں دیگر بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی جو سال 2014 سے 2018 تک خیبرپختونخوا کا ٹیکس سے مستثنیٰ علاقہ تھا۔

ٹیکس انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ نے مذکورہ اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس نادہندگان کے خلاف ایف بی آر کی بڑی کارروائی کا آغاز

محکمے کے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ لین دین کے طریقہ کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں رقم بغیر کسی معاشی جواز کے رکھی گئی، جسے متعدد مرتبہ جمع کروایا اور نقدی کی صورت میں نکالا گیا۔

ابتدائی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ رقم 3 قسم کے معاملات میں منتقل کی گئی، جس میں 10 سے 15 افراد ملوث تھے تاہم ذرائع نے ٹیکس چوری اور اسکینڈل میں ملوث افراد کے نام نہیں بتائے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ان افراد کے خلاف اب تک صرف یہ کارروائی کی گئی کہ ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس منسلک کردیے گئے، ایف بی آر معاملے کی مزید تحقیقات کررہا ہے لیکن ملزمان پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔

مزید پڑھیں: صنعت کار ٹیکس چوری کے لیے جعلی اکاؤنٹس استعمال کرنے لگے

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اس نتیجے پر پہنچا کہ رقم کی منتقلی کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے لیے دولت کو اِدھر سے اُدھر بھیجنا تھا، ان لوگوں کے خلاف ٹیکس چوری ثابت ہوئی ہے اور اس ضمن میں تحقیقات اگلے مراحل میں ہے۔

کچھ کیسز میں ٹیکس چوروں نے افسران کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات رکوادی تھیں جسے بالٓاخر عدالت نے اس درخواست پر بحال کیا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گرد کے لیے مالی معانت کے کیسز میں استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا حتیٰ کہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سابق وفاق کے زیر انتظام (فاٹا) اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) میں بھی نہیں۔

بعدازاں جب عدالت نے حکم امتناع واپس لے لیا تو اب ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ان باقی افراد سے آمدن کے ذرائع کی تفصیلات حاصل کرے گا تاہم یہ بات سامنے آئی کہ ان افراد نے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور اس سے قبل بھیجےگئے متعدد نوٹسز پر معلومات فراہم نہیں کیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن کے بعد ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی ہوگی، وزیراعظم کا قوم کے نام پیغام

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھی ان افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس کا مطلب ہے کہ منتقل کی جانے والی رقم کو ظاہر ہی نہیں کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بینک سے نقدی کی صورت میں نکالی گئی رقم کے استعمال کے بارے میں جاننے کے لیے بھی ایف بی آر نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور اب ایجنسی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا یہ رقم منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کے لیے مالی معاونت سے حاصل کی گئی، اس سلسلے میں ادارے نے اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث افراد سے رابطہ کرلیا ہے۔

دوسری جانب ڈائریکٹریٹ آف انٹیلیجنس اینڈ انویسٹی گیشن نے ایک بیان کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ غیر قانونی اور ٹیکس چوری کی رقم دور دراز اور ٹیکس سے مستثنٰی علاقوں کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی تاکہ آمدنی کا ذریعہ اور مجرمان کی شناخت پوشیدہ رہے۔


یہ خبر 13 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں