بچوں کو بہتر بنانے کی کوشش میں والدین سے ہونی والی غلطیاں : دوسرا و آخری حصہ

17 دسمبر 2019
عام طور پر غلطیاں کرتے وقت والدین کو ان کا احساس نہیں ہوتا—فوٹو: پیرنٹنگ بلاگ
عام طور پر غلطیاں کرتے وقت والدین کو ان کا احساس نہیں ہوتا—فوٹو: پیرنٹنگ بلاگ

(اس مضمون کی پہلی قسط میں آپ کو والدین کی جانب سے پرورش کی 3 غلطیوں کا جائزہ پیش کیا گیا تھا، دوسرے حصے میں پیرنٹنگ کی بقایا 7 غلطیوں کی نشاندہی اور ان پر قابو پانے کے مختصر مشورے دیے گئے ہیں)

اس مضمون کا پہلا حصہ پڑھیں

چوتھی غلطی - اپنے بچوں کا بہترین دوست بننے کا جنون

ایک دفعہ پیرنٹنگ کے ماہر سے پوچھا گیا کہ والدین پرورش کے دوران سب سے بڑی غلطی کون سی کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا والدین دراصل والدین نہیں رہنا چاہتے اور وہ سخت اقدامات لینے کے بجائے بہترین دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہر والد یا والدہ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ان سے محبت کریں، وہ چاہتے ہیں کہ بچے ان کے گن گاتے جائیں مگر ایک چیز جو والدین نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ کہ 'صحیح تربیتی قدم' عموماً وہی ہوتا ہے جو بچوں کو پسند نہیں آتا۔

وہ ایسے ہر قدم پر غصے کا اظہار کریں گے بلکہ شاید یہ بھی خواہش کریں کہ وہ کسی اور فیملی میں پیدا ہوئے ہوتے، یاد رکھیں کہ بہترین دوست بننے کا شوق، والدین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ ایسے تمام کاموں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو انہیں بچوں کی نظر میں ظالم بنا دیں، یہ بچوں سے محبت نہیں بلکہ آپ کی ضرورت ہے اور اسے سمجھنےکی کوشش کریں۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - 'معتدل حکمت عملی' اپنائیں یعنی جہاں ضرورت ہو پابندی لگائیں، سزا دیں اور زندگی کے حقائق پر بات کریں۔ جہاں بچے کو کوئی بڑا نقصان نہ ہو رہا ہو، وہاں بچوں کو با اختیار اور فیصلہ ساز بنائیں۔

پانچویں غلطی - مقابلے باز پرورش

سب ہی والدین کے اندر دوسروں کے بچے دیکھ کر مقابلے بازی کی سوچ پیدا ہو جاتی ہے، کوئی بھی جاننے والا فرد اپنے بچے کے کسی اچھے پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ہم اس کا مقابلہ اپنے بچے سے شروع کر دیتے ہیں۔

دراصل ہمیں اپنے بچے پر اعتماد نہیں ہوتا بلکہ خوف ہوتا ہے کہ 'ہمارا بچہ پیچھے رہ جائے گا'ہمارا ذہن ہمیں 'ٹریپ' کرتا ہے کہ اگر ہم نے بچے کے ساتھ زبردستی نہ کی تو ہمارا بچہ ایک 'گزارے لائق فرد' بن کر رہ جائےگا، اس لیے ایسے میں دراصل ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم ہر قیمت پر جیتنے کا مائنڈ سیٹ چاہتے ہیں۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - ہر بچے کے اندر 'کچھ خاص' صلاحیتیں، عادات اور خصوصیات ہوتی ہیں، انہیں پہچاننے کی کوشش کریں اور انہیں ڈیولپ کریں، دوسروں کے بچے کے ساتھ مقابلہ بازی کی عادت آہستہ آہستہ ختم کریں۔

چھٹی غلطی - بچپن کا سنہرا پن بھول جانا

بچپن کے سنہرے دور کو 'والدین' کے بجائے ایک بچہ بن کر سوچیں، یہ درست ہے کہ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا اور بڑا کرنا بہت مشکل اور بیزار کن ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہ کام جسمانی او ر جذباتی طور پر اتنا تھکا دینے والا ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ کاش یہ جلدی بڑے ہو جائیں تاکہ ہماری زندگی بھی کچھ آسان ہو جائے۔

اسی دوران ہی مستقبل کی کامیابی کا دباؤ ہمارے دماغ پر اتنا ہوتا ہے کہ انہیں معصوم سی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرتے دیکھ کر بھی ہمارا ذہن خدشات کا شکار رہتا ہے اور اس دوران میں ہم 'زندگی جینا' چھوڑ دیتے ہیں۔

بچوں کا شرارتی انداز میں کپڑے پہننا، ملکوتی مسکرانا، پھلجڑیوں سا کھلکھلانا، پر جوش ننھے قدم اٹھا کر ادھر سے ادھر بھاگ کر ٹانگوں سے لپٹ جانا اور انوکھی بولیوں کے ذریعے کہانی سنتے حیرت ظاہر کرنے جیسے عوامل ہمارے لیے غیر اہم ہوجاتے ہیں اور ہم اپنےساتھ ان کے بچپن کا 'سنہرا پن' بھی ختم کر دیتے ہیں اور یوں زندگی کا دباؤ ان کے بچپن کی تازگی، حقیقی مسرت اور سکون ختم کرتا چلا جاتا ہے۔

یاد رکھیں کہ بچپن نام ہی کھیل اور کھوج و تجسس کا ہے جب ہم زندگی کا دباؤ ان پر ڈالتے ہیں تو دراصل ہم ان کی معصومیت، بے ساختگی اور خوشی کو ختم کرنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - ہم روز بچوں کے کم از کم 10 چھوٹے چھوٹے لمحات جینا سیکھیں، مستقبل کا دباؤ ان پر منتقل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ بچہ بن کر سوچیں اور کھیلیں۔

ساتویں غلطی - اپنی پسند کا بچہ بنانے کی کوشش

والدین کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں کے حوالے سے بہت سے خواب آنکھوں میں بُن لیتے ہیں بلکہ پیدائش سے پہلے ہی ہم بچوں کے مستقبل کا سوچ لیتے ہیں، ہماری پوشیدہ خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ ہماری طرح بن جائیں اور چاہتے ہیں کہ وہ تھوڑا اور اسمارٹ اور تھوڑا اور باصلاحیت ہو جائیں مگر یاد رکھیں بچوں کے اپنے خواب کچھ اور ہو سکتے ہیں اور ان کا زندگیوں کا رنگ ڈھنگ اور اٹھان ہماری سوچ سے بالکل متضاد ہو سکتی ہے، اس لیے اپنے خواب ان پر مسلط کر دینا زیادہ تر نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - قدرت کی طرف سے دی گئی شخصیت کی نشاندہی کریں، اس سے میل کھاتی، منزل کی سمت جانے کی ٹریننگ فراہم کریں، بچے کی اصل شخصیت کو پہچان کر ہی آپ اس کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

آٹھویں غلطی - گفتار اور کردار کا مختلف ہونا

بیشتر والدین کا گفتار ان کے کردار سے متضاد ہوتا ہے اور اس دہرے پن کو مستقل طور پر رکھنے سے ہم بچوں کو دہری شخصیات میں ڈھال رہے ہوتے ہیں، والدین کیسے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں، کیسے مسترد کیے جانے، ناکام ہوجانے پر رد عمل دیتے ہیں، کیسے دوستوں اور اجنبیوں سے معاملات رکھتے ہیں اور کیسے والدین ایک دوسرے سے تعلق کو لے کرچلتے ہیں، بچے ان سب چیزوں کو نوٹ کرتے ہیں اور والدین کے اسی عمل سے سیکھتے ہیں۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - بچوں کو غیر معمولی شخصیت بنانے کا ایک کھلا راز یہ ہے کہ ہم 'غیر معمولی شخصیت' بننے کی کوشش کرتے رہیں۔

نویں غلطی - دوسرے والدین اور ان کے بچوں پر فیصلے صادر کرنا

کسی کا پیرنٹنگ اسٹائل ہم سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، یہ ہمارا اختیار نہیں کہ ہم ان پر فیصلے صادر کریں، کوئی بھی اس دنیا میں مکمل درست یا مکمل غلط نہیں ہوتا، ہم سب اچھائی اور برائی کا امتزاج ہو سکتے ہیں۔

دوسرے والدین کے اندرونی حالات سے مکمل واقفیت ہونے تک ہم ان کی پیرنٹنگ پر بات نہیں کر سکتے، ہر گھر کے حالات، مشکلات اور مسائل الگ ہو سکتے ہیں، اس لیے دیگر والدین اور ان کے بچوں پر اعتراض یا تنقید کرنا ان کے لیے تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ – کسی کے حوالے سے ذہن بنانے سے پہلے اسے اور اس کی شخصیت، گھریلو حالات اور اس کے مسائل کو سمجھنے کی عادت پیدا کریں۔

دسویں غلطی - کردار اور اسے نکھارنے کو نظر انداز کرنا

اگر والدین کو بچوں میں صرف اور صرف ایک چیز ڈیولپ کرنے کی اجازت ہو تو بلاشبہ یہ واحد چیز کردار ہونی چاہیے، کرداریعنی ہمارے اندر کی بنیادی وصف، راہ دکھانے والا ہمارا 'اندر کا چراغ، یاد رکھیں کہ کردار کی بہتری امتحانات میں اچھی رپورٹ کارڈ، ٹرافی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

ہم اپنے بچوں میں کردار نکھارنے کو ایک اضافی کام سمجھتے ہیں، والدین سوچتے ہیں کہ بڑے ہو کر ان کا کردار خودبخود ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ صرف والدین کی غلط فہمی ہوتی ہے، عام طور پر 10 سے 15 سال کی عمر میں بچوں کے نزدیک بھی کردار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو عارضی فوائد سے بچاتے ہوئے انہیں مستقبل میں لوگوں سے اچھا معاملے کرنے والا اور اپنے بارے میں مثبت سوچنے والا بنانے کی فکر کریں۔

یاد رکھیں کہ کردار، اعتماد، مضبوطی اور گر کر دوبارہ اٹھنے کی قوت، بچوں میں صرف مشکلات کا سامنا کرنے سے آسکتی ہیں۔

اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ – بچوں کی زندگی کے کاموں اور ایشوز کو 3 اقسام میں تقسیم کر کے ان کی فہرستیں بنائیں اور فہرست شارٹ ٹرم ، مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں پر ہونی چاہیے۔

اب ہر کام کو اس کےممکنہ اثرات سے ترجیح دیں، شارٹ ٹرم کاموں پر کم، اور لانگ ٹرم کاموں، ایشوز اور مسائل پر زیادہ فوکس کرتے ہوئے کام کی کوشش کریں۔

یہ درست ہے کہ اپنے بچوں کو عارضی طور پر بھی ناکام دیکھنا مشکل ہوتا ہے مگر کبھی کبھار والدین کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے، بچوں سے محبت کے لاکھوں طریقے ہو سکتے ہیں اور یہ بھی والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو شارٹ ٹرم مشکلات سے گزرنے دیں تاکہ وہ لانگ ٹرم ثمرات حاصل کر سکیں۔


فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے ساتھ [email protected] اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں