سوشانت سنگھ کو متنازع شہریت قانون کی مخالفت پر ٹی وی شو سے نکالا گیا؟

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2019
سوشانت سنگھ کافی عرصے سے ساودھان انڈیا شو کی میزبانی کرتے آ رہے تھے—فوٹو: فیس بک
سوشانت سنگھ کافی عرصے سے ساودھان انڈیا شو کی میزبانی کرتے آ رہے تھے—فوٹو: فیس بک

’دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘ جیسی فلموں میں شاندار اداکاری کرنے والے بولی وڈ اداکار و بھارتی ٹیلی وژن کے معروف اداکار کو مبینہ طور پر متنازع شہریت کے قانون کی مخالفت کرنے پر معروف ٹی وی شو ’ساودھان انڈیا‘ سے نکال دیا گیا۔

سوشانت سنگھ نے گزشتہ روز اپنی مختصر ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ ان کا ’ساودھان انڈیا‘ میں اداکاری کا سفر ختم ہوا۔

اداکار کی جانب سے ٹوئٹ کیے جانے کے بعد متعدد افراد نے ان کی ٹوئٹ کو لائیک کیا جب کہ درجنوں افراد نے اس پر کمنٹس بھی کیے۔

ایک صارف انیشا دتا نے ان کی ٹوئٹ پر کمنٹ کیا کہ انہیں ’سچ‘ بولنے کی قیمت ادا کرنی پڑی، جس پر اداکار نے جواب دیا کہ انہیں ’سچ‘ بولنے کی انتہائی کم قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔

ٹی وی شو سے اپنے اختتام کے بعد سوشانت سنگھ نے بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انہیں ڈرامے سے الگ کردیا گیا ہے، تاہم انہیں اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔

سوشانت سنگھ کے مطابق ٹی وی انتظامیہ نے ان کا معاہدہ ختم کردیا ہے اور ٹی وی انتظامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی جگہ کسی اور شخص کو ذمہ داریاں سونپیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں معاہدہ ختم کرنے کا سبب نہیں بتایا گیا اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہے کہ کس بات پر انہیں ٹی وی شو سے الگ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع بھارتی شہریت بل لوک سبھا سے منظور

سوشانت سنگھ کے مطابق یہ اتفاق ہے کہ جس دن انہوں نے متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی تھی، اسی دن ہی ان کا ٹی وی شو کا معاہدہ ختم کردیا گیا اور وہ اس حوالے سے افواہیں پھیلانا نہیں چاہتے اور سچ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ انہیں ٹی وی شو سے کیوں الگ کیا گیا۔

سوشانت سنگھ نے متنازع شہریت قانون بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتے، متنازع قانون اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانا ان کا فرض ہے، کیوں کہ مستقبل میں اگر ان سے ان کے بچے سوال کریں گے تو ان کے پاس جواب ہوگا۔

اداکار کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ وہ اپنا ٹیلنٹ فروخت کرتے ہیں مگر وہ اپنا ضمیر اور آواز فروخت نہیں کر سکتے اور وہ ناانصافی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

سوشانت سنگھ کے مطابق متنازع شہریت قانون پر آواز اٹھانے والے وہ ایک اکیلے بولی وڈ شخص نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ تپسی پنو، ریچا چڈا، ذیشان ایوب اور انوبھاو سنہا جیسے لوگ بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت کا متنازع شہریت بل راجیا سبھا سے بھی منظور

اداکار کا کا کہنا تھا کہ بولی وڈ کی جن شخصیات کو متنازع شہریت قانون درست لگ رہا ہے وہ خاموش ہیں اور جنہیں یہ قدم غلط لگ رہا ہے وہ ان کی طرح بول رہے ہیں اور انہیں جو کچھ بھی غلط لگے گا اس پر وہ بولیں گے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انہیں سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے تو انہیں بہت کم سزا دی گئی ہے۔

متنازع بل پاس ہونے کے بعد ریاست آسام میں سب سے زیادہ مظاہرے کیے گئے—فوٹو: اے پی
متنازع بل پاس ہونے کے بعد ریاست آسام میں سب سے زیادہ مظاہرے کیے گئے—فوٹو: اے پی

خیال رہے کہ سوشانت سنگھ کا کرائم ٹی وی شو ’ساودھان انڈیا‘ بھارت میں سب سے زیادہ دیکھنے والے ٹی وی شوز میں سے ایک ہے اور یہ شو کئی سال سے چلتا آر ہا ہے اور اداکار ہی اس کی میزبانی کرتے آ رہے تھے۔

خیال رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا نے متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 جب کہ ایوان بالا یعنی لوک راجیا سبھا نے 11 دسمبر کو منظور کیا تھا اور اگلے دن بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد مذکورہ بل قانون بن گیا تھا۔

اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

اس قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

بل کے قانون بن جانے کے بعد اس کے خلاف نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور 16 دسمبر تک بھارت میں ہونے والے مظاہروں میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے جامعہ ملیہ سمیت دیگر اداروں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز
نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز

تبصرے (0) بند ہیں