'میرے خلاف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے کیس بنایا اور سنا گیا'

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2019
میں پاکستان کا عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، سابق صدر — فائل فوٹو
میں پاکستان کا عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، سابق صدر — فائل فوٹو

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے کیس بنایا اور سنا گیا جس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا۔

اپنے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'خصوصی عدالت نے میرے خلاف آرٹیکل 6 کا جو فیصلہ سنایا وہ میں نے ٹی وی پر پہلی بار سنا، یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعا علیہ اور نہ اس کے وکیل کو اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں نے یہ تک کہا تھا کہ اگر کوئی خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہاں آئے تو میں اسے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہوں، اس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔'

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ 'میں اس فیصلے کو مشکوک اس لیے کہتا ہوں کہ اس کیس کی سماعت میں شروع سے آخر تک قانون کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ یہ بھی کہوں گا کہ آئین کے مطابق اس کیس کو سننا ضروری نہیں ہے، اس کیس کو میرے خلاف صرف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے بنایا اور سنا گیا اور اس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا اور ان لوگوں نے ہدف بنایا جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'قانون کا مایوس کن استعمال، فرد واحد کو نشانہ بنانا اور واقعات کا اپنی منشا کے مطابق چناؤ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں پاکستان کا عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب کہا کہ وہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ہر شخص قانون کے لیے برابر ہوگا اس پر میں بھی یقین رکھتا ہوں، لیکن چیف جسٹس نے اپنے ارادے اور عزائم خود یہ کہہ کر ظاہر کر دیے کہ میں نے اس مقدمے کے چند فیصلوں کو یقینی بنایا۔'

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ: 'افواج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے'

سابق صدر نے کہا کہ 'کیسے وہ جج جنہوں نے میرے دور میں اپنے لیے فوائد اٹھائے ہوں میرے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں، میں پاکستانی عوام اور مسلح افواج کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ملک کے لیے میری خدمات کو یاد رکھا، یہ میرے لیے سب سے بڑا تمغہ ہے اور میں اسے قبر میں ساتھ لے کر جاؤں گا۔'

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد فیصلہ کروں گا، مجھے پاکستانی عدلیہ پر اعتماد ہے کہ وہ مجھے انصاف دے گی اور قانون کی بالادستی کو مدنظر رکھے گی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے بعد 3 رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم دیا۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جمعرات (آج) جاری کرے گی۔

خیال رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں، جہاں انہیں طبیعت ناسازی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں‘

آج دیے گئے فیصلے پر پرویز مشرف کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے، تاہم اگر عدالت عظمیٰ بھی خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجرم کی سزا کو معاف کرسکیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں