بھارت کے ارادے ٹھیک نہیں، ہماری انٹیلی جنس کو اشارے ملے ہیں،وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2019
وزیرخارجہ نے ایک ویڈیو پیغام میں بھارت کو خبردار کیا—فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیرخارجہ نے ایک ویڈیو پیغام میں بھارت کو خبردار کیا—فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

اپنے ایک ویڈیو پیغام میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شہریت قانون پر احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کی جانب سے ایک نیا ناٹک رچانے کا خدشہ ہے، بھارتی آرمی چیف کا بیان بہت غیرذمہ دارانہ ہے اور ہماری انٹیلی جنس کو کچھ اشارے ملے ہیں اور ہمیں لائن آف کنٹرول پر غیرمعمولی نقل و حرکت دکھائی دے رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تعیناتیاں، غیرمعمولی نقل و حرکت کی سوچ یہ سب اشارہ کرتی ہے کہ بھارت کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں لیکن میں پاکستان کی قوم کی جانب بھارتی سرکار کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہم پرامن لوگ ہیں تاہم آپ 27 فروری کو نہ بھولیں، اگر جارحیت کی گئی یا فالس فلیگ آپریشن کیا گیا یا کسی بہانے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو پاکستان کی افواج تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بروقت اور مناسب جواب دیا جائے گا اور پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ ہوگی اور پاکستان کے نظریے، جغرافیے اور کشمریوں کے حق خودارادیت کی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دے گی لہذٰا ایسی غلطی مت کرنا، ہم پرامن لوگ ہیں اور ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

مزید پڑھیں: 'بھارتی آرمی چیف کا بیان شہریت قانون پر جاری احتجاج سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے'

انہوں نے کہا کہ بھارت کے اقدامات کو بھانپتے ہوئے 12 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کو ایک اور خط بھیجا جو میرا ساتواں خط تھا، اس خط میں، میں نے بھارت کے ان اقدامات کی نشاندہی ظاہر کی ہے جس سے بھارت کے ناپاک اردارے ظاہر ہوتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے اپنے خط میں 4 اقدامات کی طرف توجہ دلائی ہے، جس میں ایک یہ جنوری 2019 سے اب تک بھارت نے تقریباً 3 ہزار مرتبہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں 300 کے قریب نہتنے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 ایسی جگہوں کی نشاندہی کی ہے کہ جہاں لائن آف کنٹرول پر لگی باڑ کو کاٹا گیا ہے، اس کے پیچھے عزائم و ارادے کیا ہیں، کیا کوئی نیا مس ایڈونچر کا ارادہ ہے؟ اس سے بھی ہمیں تشویش لاحق ہوتی ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے ساتھ ساتھ نئی تعیناتیاں کی گئی ہیں، براہموس میزائل کی مقبوضہ کشمیر میں تعیناتی قابل غور ہے، اسپائک میزائل جو اینٹی ٹینک میزائل ہے ان کا آزاد کشمیر میں ڈپلائی ہونا قابل تشویش ہے'۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اگست 2019 اب تک جو میزائل کے تجربے کیے گئے ہیں اس سے بھارت کے خطرناک ارادوں جس سے خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کا طریقہ کار واضح دکھائی دے درہا ہے۔

اپنے پیغام میں شاہ محمود قریشی نے کہا اس خط کی بنیاد پر چین نے دوسری مرتبہ ہماری درخواست پر اس معاملے کو سلامتی کونسل میں اٹھایا، چین نے بروقت یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں خدشات لاحق ہیں لہٰذا سلامتی کونسل کے فوجی مبصرین جو پاکستان اور بھارت میں تعینات ہیں وہ اس معاملے کی چھان بین کرکے سلامتی کونسل کو آگاہ کریں۔

وزیرخارجہ کے مطابق یہ معاملہ بروقت اٹھایا گیا ہے لٰہذا فوری طور پر اس کی تاریخ کا تعین ہونا چاہیے تاکہ حقائق آزادنہ تنظیم کی طرف سے سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے۔

ویڈیو پیغام میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ مودی سرکاری کا طریقہ کار واضح دکھائی دے رہا ہے، وہ پہلے 5 اگست کے اقدامات اٹھاتے ہیں جس پر پورا کشمیر سراپا احتجاج ہے، اس کے علاوہ عالمی دارالحکومتوں، امریکی کانگریس، یورپی یونین میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت کے نئے قانون پر عملدرآمد روکنے کی اپیلیں مسترد کردیں

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں 136 روز سے کرفیو جاری ہے، بنیادی حقوق اور مواصلاتی نظام معطل ہے، میڈیا وہاں جا نہیں سکتا جبکہ بین الاقوامی مبصرین اور سفارتکاروں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھارت میں بابری مسجد کا ایک فیصلہ آتا ہے، جس سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں میں احساس محرومی کا تصور پیدا ہوتا ہے جبکہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی دباؤ کا شکار نظر آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ این آر سی کا جو قدم اٹھایا گیا اور آسام کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے ان جلوسوں کی خود قیادت کی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف نکالے گئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس قانون پر بھارت کے ہر چپے میں احتجاج ہورہا، پوری بھارتی اپوزیشن اس پر سراپا احتجاج ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک امتیازی قانون اور بھارتی آئین کے روح کے منافی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں