سنگین غداری کیس فیصلہ: پیرا 66 لکھنے والے جج کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2019
17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو  سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے تفصیلی فیصلے کا یپیرا 66 لکھنے والے جج کا دماغی توازن ٹھیک نہیں،ایسے شخص کو کسی بھی صورت میں جج نہیں رہنا چاہیے۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی پر نجی ٹی وی چینل اے آر وائے سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلہ غیرآئینی، غیر اخلاقی، غیرانسانی ہے اور ایسے فرد کی جانب سے دیا گیا جس کی سنجیدگی پر سوال اٹھتا ہے۔

واضح رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیرا 66 کہا گیا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونا چاہیے، سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ

انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ کسی صورت قبول نہیں، متعقلہ جج کا معاملہ انکوائری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جج کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور میں ان کے خلاف فورری ایکشن لوں گا۔

انور منصور خان نے کہا کہ صدر ہو یا نہ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ کوئی بھی شخص سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے درخواست دینی پڑے گی اور قانون اجازت دیتا ہے کہ ہم دررخواست دیں اور میں اس درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار طے کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس فیصلے سے نظر آرہا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی اور انتقام کی بنیاد پر کیا گیا ہے بلکہ' فیصلے کے پیرا 56 میں ادارے پر بھی چوٹ کی گئی ہے کہ فوج نے حلف لیا ہوا ہے اور یہ حلف کے خلاف ہے اس کا مطلب ہے کہ فیصلے میں فوج پر حملہ کیا گیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا شخص جس کا دماغی توازن جو مناسب نہیں ہے اور جو اسلام، قانون اور آئین کے خلاف کررہا ہو ایسے شخص کو کسی بھی صورت میں جج نہیں رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی افتخار چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی جج بن گئے جن کی اہلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ' آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم ہی نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں، نہ لفظ چننے کی اہلیت ہے نہ بیان کا سلیقہ، یہ ریت نئی نہیں ہے لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا'۔

خیال رہے کہ خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں 2 ججز نے سابق صدر کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت دی۔

17 دسمبر کو خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں