دہلی: شہریت قانون کے خلاف جامع مسجد کے باہر مظاہرے، 'دلت رہنما' گرفتار

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2019
اتر پردیش متعدد جھڑپوں میں 260 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے —فائل فوٹو: رائٹرز
اتر پردیش متعدد جھڑپوں میں 260 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے —فائل فوٹو: رائٹرز

بھارتی پولیس نے دہلی کی تاریخی جامع مسجد سے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مشتعل مظاہرین کے اجلاس سے خطاب کرنے والے ایک دلت رہنما چندر شیکھر آزاد کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’ایک ساتھ تین طلاق کو قابل سزا جرم دینے کے قانون‘ کے خلاف آواز اٹھانے والے علما شہریت سے متعلق قانون کے خلاف مظاہروں میں شریک نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت قانون کےخلاف پُرتشدد مظاہرے جاری، 14 افراد ہلاک

مظاہرے کے دوران بس کو بھی نذرآتش کیا گیا —فوٹو: رائٹرز
مظاہرے کے دوران بس کو بھی نذرآتش کیا گیا —فوٹو: رائٹرز

شہریت میں ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہنے والوں میں جامع مسجد کے شاہی امام اور دیوبند مدرسے کے رہنما بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے 'غیر قانونی تارکین وطن' کو بے دخل کرنے کے لیے ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پر یہ الزام لگایا گیا کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر طلبا کو پرتشدد حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔

واضح رہے کہ دیوبند اتر پردیش میں دہلی کے قریب واقع ہے جہاں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکمرانی ہے۔

مزیدپڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

طلبہ نے گرفتاریوں کے خلاف پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز
طلبہ نے گرفتاریوں کے خلاف پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا—فوٹو: رائٹرز

اطلاعات کے مطابق دہلی، اتر پردیش، گجرات اور کرناٹک میں مظاہروں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا جہاں بی جے پی پولیس کو کنٹرول کرتی ہے۔

خیال رہے کہ 11 دسمبر کو پارلیمنٹ کے ذریعے منظور شدہ ترمیم شدہ شہریت کے قانون پر پورے اترپردیش میں کم از کم 15 افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے۔

شمال مشرقی ریاست آسام سے ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اتر پردیش میں متعدد جھڑپوں میں 260 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جہاں مغربی اتر پردیش کے رام پور میں مظاہرے ہوئے اور ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع موصول ہوئی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اتر پردیش میں ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: غیرمسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں مظاہرے کرنے والی طالبات کو دیکھا گیا جس کے بعد مردوں نے ان کے ساتھ شرکت کی۔

علاوہ ازیں قانون کے خلاف حبیب جالب کی نظمیں بھی پڑھی گئیں۔

جامع کیمپس میں مسلسل 7ویں دن بھی احتجاجی مظاہرے جاری رہے اور جنوبی دہلی کے چاانکیاپوری کے اتر پردیش بھون کے آس پاس کے علاقوں میں ممنوعہ احکامات جاری کردیے گئے۔

نئی دہلی میں دلت رہنما چندرشیکھر آزاد کی سربراہی میں جامع مسجد میں ایک زبردست احتجاج ہوا اور جنتر منتر تک مارچ کا مطالبہ کیا گیا۔

شام کے وقت تک سیکڑوں افراد ممنوعہ احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مارچ کے بعد مدھیہ پردیش کے جبل پور ضلع کے کچھ علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا۔

کانگریس کی زیرقیادت ریاستی حکومت نے ملک بھر میں قانون کے خلاف پُرتشدد مظاہروں کے درمیان 52 میں سے 50 اضلاع میں بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کردی۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں