خیبر پختونخوا حکومت بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2019
حکومت نے 20 اپریل 2018 میں منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا — فائل فوٹو: عبدالمجید گورائیا
حکومت نے 20 اپریل 2018 میں منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا — فائل فوٹو: عبدالمجید گورائیا

پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کا حکم دینے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے منصوبے کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں کی 45 دن کے اندر تحقیقات کی جائیں، عدالت عالیہ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا بی آر ٹی کی تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ایک درخواست جمع کرائی گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ میں علیحدہ درخواست دائر کردی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ایف آئی اے خیبر پختونخوا نے بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات شروع کردی تھیں۔

6 دسمبر کو خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے کہا تھا کہ حکومت نے 14 نومبر کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے خلاف سول پٹیشن تیار کرلی ہے جسے آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے بی آر ٹی پشاور میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کردیں

انہوں نے کہا تھا کہ سول اپیل میں ہائی کورٹ بینچ کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں چند قانونی نکتے بھی اٹھائے تھے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے نومبر میں بی آر ٹی سے منسلک تین درخواستوں پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

دو درخواست گزاروں فضل کریم آفریدی اور عدنان آفریدی نے حیات آباد ٹاؤن شپ میں اپنے گھر کے سامنے منصوبے کے مختلف ڈھانچے کھڑے کرنے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: بی آر ٹی منصوبے اور ہماری خامیاں

ایک اور درخواست گزار ایڈووکیٹ عیسیٰ خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ عدالت راہگیروں کے لیے اوور ہیڈ برجز یا انڈرر پاسز کی تعمیر کا حکم دے جس میں سے کسی کا بھی فاصلہ 100میٹر سے زیادہ نہ ہو۔

بینچ نے 35 نکتے اٹھاتے ہوئے ایف آئی اے کو منصوبے کی تحقیقات اور کسی بھی قسم کی بدعنوانی کی صورت میں قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا تھا۔

نیب کو کارروائی سے روک دیا گیا

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی زیر سربراہی بینچ نے 17 جولائی 2018 کو نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے معاملات کی مکمل تفتیش اور تحقیقات کرے تاہم صوبائی حکومت اور پی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں سول پٹیشن دائر کرتے ہوئے اس عدالتی حکم کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی زیر سربراہی بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ کے حکمنامے کو معطل کردیا تھا اور نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکی تھیں۔

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں