اقوام متحدہ نے ملالہ کو دہائی کی مقبول ترین لڑکی قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2019
ملالہ  یوسفزئی کو 2014 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز
ملالہ یوسفزئی کو 2014 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز

اقوام متحدہ کے ایک جائزے میں کہا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں دنیا کی مقبول ترین نوعمر لڑکی بن گئی ہیں۔

اس جائزے میں اقوام متحدہ کی نیوز سروس نے 21ویں صدی میں نوعمری میں ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیا گیا اور 2010 سے 2019 کے درمیان عالمی سطح پر ملالہ کی مقبولیت مثبت کہانیوں میں سرِفہرست ہے۔

اقوام متحدہ کے جائزے کا پہلا حصہ 2010 سے 2013 کے اواخر کے عرصے تک مبنی ہے جو ہیٹی کے تباہ کن زلزلے، لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ کی کوششوں اور مالی ’ دنیا کے خطرناک مشن‘ کے قیام پر مشتمل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ چھوٹی عمر سے پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھانے اور طالبان کے مظالم کی نشاندہی کے لیے جانی جاتی ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ملالہ یوسف زئی اقوام متحدہ کی سفیر برائے امن مقرر

اس میں نشاندہی کی گئی ہے ملالہ وادی سوات میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں اور اکتوبر 2012 میں اسکول سے گھر جاتے ہوئے انہیں اور ان کے ساتھ موجود لڑکیوں پر طالبان نے فائرنگ کی تھیں، ان کے سر میں گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گئیں اور صحت یاب بھی ہوگئیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ ملالہ کے سرگرمیوں اور پروفائل میں صرف قاتلانہ حملے کے بعد اضافہ ہوا ہے، انہوں نے کئی ہائی پروفائل ایوارڈز بھی جیتے جس میں 2014 میں امن کا نوبیل انعام، لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ کے ساتھ 2017 میں اقوام متحدہ کی سفیر برائے امن مقرر ہونا شامل ہیں‘۔

مالی: مالی میں قیامِ امن کو اقوام متحدہ کا ’ خطرناک ترین مشن‘ قرار دیا جاتا ہے، جہاں امن فوجیوں نے شہریوں کو عدم استحکام سے بچاتے ہوئے شدید اور روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتیں برداشت کی ہیں جس میں مہلک بین النسلی جھڑپیں شامل ہیں۔

مالی میں اقوام متحدہ کے مشن مینوسما کا قیام اپریل 2013 میں عمل میں آیا تھا جب سلامتی کونسل نے ایک آپریشن کی منظوری دی تھی۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی فورس میں پاکستان اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور اب تک اقوام متحدہ امن مشن کے دوران 185 پاکستانی فوجی شہید ہوچکے ہیں۔

شام : 2011 میں ملک شام میں بحران کا آغاز ہوا تھا جو تاحال جاری ہے، 8 سال سے جاری تشدد مشرقی وسطیٰ کے ملک سے مہاجرین کے سب سے بڑے اخراج کا سبب بنا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کے مطابق 8برس میں ہزاروں شہری مارے جاچکے ہیں، 2011 سے لے کر اب تک 50 سے 60 لاکھ افراد شام سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں اور کچھ 60 لاکھ افراد ملک میں ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈ چلڈرن پرائزبھی ملالہ یوسف زئی نے جیت لیا

ایبولا: دسمبر 2013 میں جمہوریہ گنی کے گاؤں میں ملیانڈو میں ایک بچے ایمیل اوامونو میں ایک بچہ جاں بحق ہوگیا، ایمیل کو پیشنٹ زیرو کا نام دیا گیا جس کے بعد تاریخ میں ایبولا وائرس بدترین طریقے سے پھیلا تھا۔

یہ مہلک وائرس جموریہ گنی میں تیزی سے پھیلا اس کے ساتھ پڑوسی ملک لائبیریا اور سیرا لیون میں بھی پھیلا تھا اور جنوبی افریقا ایبولا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں آگیا۔

اس برس اس وائرس سے 6 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے اور لوگ خوف میں مبتلا ہوگئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت( ڈبلیو ایچ او ) نے 2016 تک جمہوریہ گنی، لائبیریا اور سیرا لیون میں ایبولا کے 28 ہزار 6 سو 16 کیسز اور 11 ہزار 3 سو10 ہلاکتیں ریکارڈ کیں۔

2016 میں ڈبلیو ایچ او سے جاری آزاد رپورٹ میں وائرس کی شناخت میں تاخیر کو اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔


یہ خبر 26 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں