حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8لاکھ افراد کو ہٹانے کا دفاع

26 دسمبر 2019
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود اور غربت مٹاؤ پروگرام ثانیہ نشتر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود اور غربت مٹاؤ پروگرام ثانیہ نشتر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اے پی پی

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود اور غربت مٹاؤ پروگرام ثانیہ نشتر نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا بیس سے 8لاکھ سے زائد افراد کو ہٹانے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ثانیہ نشتر نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کا فیصلہ 10سال قبل کیے گئے سروے سے کیا گیا تھا، لوگوں کے حالات 10سال میں بدل سکتے ہیں، یہ بات بھی ممکن ہے کہ جن افراد کو سروے کے ذریعے مستحق سمجھا گیا ہو وہ سرے سے اس کے مستحق ہی نہ ہوں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8 لاکھ 20 ہزار افراد کا نام نکالنے کا فیصلہ

ڈیٹا بیس سے لوگوں کے نام نکالنے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے لیے حکومت نے ایک معیار متعین کیا ہے اور اس پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معیار کے انتخاب میں اپنے تئیں بہترین کوشش کی ہے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو فارنسک آڈٹ بھی کیا جا سکے، یہ کوئی ایڈہاک فیصلہ نہیں کہ جسے کسی کی خواہش یا سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہو۔

ثانیہ نشتر نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں حکومتی ملازمین کے ناموں کو شامل نہیں کیا جائے گا، حکومتی ملازمین کو ان کے گریڈ کے مطابق تنخواہ کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ملک کے غریب ترین افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے جبکہ ڈیٹا بیس سے نکالے گئے افراد کی جگہ 8لاکھ مستحق افراد کے ناموں کو فہرست کا حصہ بنایا جائے گا۔

انہوں نے اس پروگرام کے لیے نئے معیار کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین یا ان کے شوہر جنہوں نے بیرون ملک ایک یا ایک سے زائد بار سفر کیا ہو، گاڑی کے مالک ہوں، جن کا پی ٹی سی ایل یا موبائل کا بل گزشتہ 6ماہ کے عرصے میں ایک، ایک ہزار روپے زائد ہو، انہیں اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بی آئی ایس پی سے ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین کے مستفید ہونے کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ شہری اور ان کی شریک حیات، جنہوں نے پاسپورٹ کی درخواست دیتے ہوئے نادرا کی ایگزیکٹو سروس استعمال کی ہو، ان کے تین یا اس سے زائد اہلخانہ نے نادرا کی قومی شناختی کارڈ کی ایگزیکٹو سروس سے استفادہ کیا ہو یا پھر حکومت، ریلویز، پوسٹ آفس اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود اور غربت مٹاؤ پروگرام نے واضح کیا کہ اس فیصلے میں کسی بھی قسم کی سایسی مداخلت کارفرما نہیں اور یہ تکنیکی بنیادوں پر کیا گیا ہے، نظر میں اس طرح کے افراد وظیفے کے مستحق نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آگے چل کر فائدہ اٹھانے والے تمام افراد کی ڈیجیٹل سروے کے ذریعے شناخت کی جائے گی اور ضلعی سطح پر ایک ڈیسک بنا کر ڈیجیٹل سروے مکمل نہ کرنے والے خاندانوں کا پتہ چلایا جائے گا اور ڈیٹا ملنے کے بعد اس فہرست میں کمی کی جا سکے گی جبکہ اس کی تکمیل کے بعد وظیفہ جاری کرنے سے قبل ایک مرتبہ پھر تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک قانون اور ایک محکمے کا نام ہے، ہم قانون کی منسوخی یا نام کی تبدیلی کے بارے میں نہیں سوچ رہے جبکہ ایک نیا پروگرام 'کفالت پروگرام' بھی شروع کر رہے ہیں جو احساس پروگرام کے زیر سایہ کام کرے گا۔

ان کا کہناتھا کہ کفالت پروگرام کے تحت مقررہ معیار پر پورا اترنے والوں کو وظیفہ جاری نہیں کیا جائے گا جبکہ ہم سروے پر بھی مکمل انحصار نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں اعدادوشمار کا استعمال کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: دنیا کہتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم نہیں کرنے دیں گے، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس پروگرام کے لیے دو بینکوں کو منتخب کیا ہے، ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سخت معاہدے کیے ہیں جس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی بھی شناخت چرائی نہ جا سکے اور رقم کی ادائیگی کے لیے بایومیٹرک کی جانب گامزن ہیں۔

ثانیہ نشتر نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے وظیفے میں فی کس 500روپے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں ائن کنٹرول کے ساتھ رہائش پذیر 216گاؤں کے باسیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے محض کم آمدنی والی خواتین کو وظیفہ دیا جاتا تھا لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر رہنے والی تمام خواتین کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں