چین نے اعلان کیا ہے کہ امریکا کے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) کے مقابلے میں اس کی جانب سے تیار کیا جانے والا بیدویو نیوی گیشن سیٹلائیٹ سسٹم (بی این ایس ایس) اگلے سال کی پہلی ششماہی میں آخری 2 سیٹلائیٹس کو خلا میں چھوڑے جانے کے ساتھ مکمل ہوجائے گا۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر رین چینگ کی نے اس بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پوزیشننگ سسٹم کی بنیاد رواں ماہ اضافی سیٹلائیٹس کو خلا میں بھیجے جانے والے مکمل ہوجائے گی، اب تک 24 سیٹلائیٹس اس سلسلے میں چھوڑے جاچکے ہیں۔

جی پی ایس سیٹلائیٹس کو لوکیشن ڈیٹا بیمنگ کے لیے اسمارٹ فونز، گاڑیوں کے نیوی گیشن سسٹمز اور اس طرح کے تمام نظاموں میں استعمال کیا کیا جارہا ہے اور ایسے تمام سیٹلائیٹس کو امریکی فضائیہ کنٹرول کرتی ہے اور اب چین دنیا کا دوسرا ملک بننے والا ہے جو اس ٹیکنالوجی کو تشکیل دینے میں کامیاب رہا ہے۔

چین نے اس نیوی گیشن سسٹم کی تیاری کا کام 90 کی دہائی میں شروع کیا تھا اور چین کے پیچیدہ ترین منصوبوں میں سے ایک ہے جس کو مکمل ہونے میں متعدد سال لگے۔

رین چینگ کی نے بتایا کہ یہ نظام ہائی پرفارمنس انڈیکٹر، نئے ٹیکنالوجی سسٹمز سمیت متعدد مقاصد کے لیے استعمال ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا 'جون 2020 سے قبل ہم 2 مزید سیٹلائیٹس کو زمین کے مدار میں چھوڑے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، جس کے ساتھ بیدویو تھری سسٹم مکمل ہوجائے گا'۔

انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں زیادہ اسمارٹ، زیادہ قابل رسائی اور انٹیگریٹڈ سسٹم کو 2035 کو بیدویو کا حصہ بناکر 2035 تک آن لائن کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا اہم خلائی انفراسٹرکچر کے ذریعے دنیا کو پبلک سروسز فراہم کی جاسکیں گی اور بیدویو سسٹم دنیا کی خدمت اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔

چین کی جانب سے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران خلائی پروگرام کو بہت تیزی سے ترقی دی گئی ہے اور خودانحصاری کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیکنالوجیز تیار کی گئی ہیں اور اس وقت فائیو جی ڈیٹا پراسیسنگ جیسے شعبوں میں بھی بالادستی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔

2003 میں چین دنیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا جس نے خلا میں انسان بردار مشن بھیجا تھا اور اس کے بعد بھی تجرباتی خلائی اسٹیشن تعمیر کیا جبکہ چاند کی سطح پر مشن بھی بھیجے۔

چین کی جانب سے مکمل فعال مستقل اسپیس اسٹیشن مستقبل میں بھیجنے کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے جبکہ مریخ پر مشن اور چاند پر انسانوں کو بھیجنے کا بھی ارادہ ہے۔

گزشتہ سال بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ چین کا انتہائی جرات مندانہ منصوبہ ہے جو کہ اس ملک کے لیے بے مثال کامیابی بھی ہے جو کہ پہلے ہی خلائی کمرشل پرواز، مصنوعی سورج سے سستی توانائی اور انسانی ساختہ مصنوعی چاند پر بھی کام کررہا ہے۔

اس دوسرے عالمی نیوی گیشن سسٹم کے لیے کمپنیوں کو منفرد انفراسٹرکچر، میٹریلز، پرزے اور سافٹ وئیر تیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس حوالے سے چینی کمپنیاں ایسی ڈیوائسز تیار کررہی ہیں جو بیدویو سے 2020 تک مطابقت پیدا کرسکیں۔

توقع کی جارہی ہے کہ بیدویو پر کام کرنے والی سالانہ ڈیڑھ کروڑ چپس صرف خودکار گاڑیوں میں ہی استعمال ہوں گی۔

چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور پرکشش آٹو مارکیٹ ہے اور چینی حکومت چاہتی ہے کہ تمام گاڑیان 2020 میں بیدویو کو استعمال کریں، جس کے لیے بڑی کار کمپنیاں جیسے ٹویوٹا اور واکس ویگن وغیرہ کام بھی کررہی ہیں۔

سام سنگ، ہواوے اور شیاﺅمی کے اسمارٹ فونز میں بھی اس ٹیکنالوجی کو شامل کرنے پر کام ہورہا ہے جبکہ عالمی سطح پر اسمارٹ فونز چپس تیار کرنے والی امریکی کمپنی کوالکوم کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے چینی جی پی ایس سسٹم کو سپورٹ کررہی ہے۔

چین اس ٹیکنالوجی کو حکومتی طور پر تیار ہونے والے طیاروں کے لیے گزشتہ سال سے استعمال کررہی ہے۔

کچھ سال یہلے یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پاکستان ایشیا کا پانچواں ملک ہے جو چین کی اس نیوی گیشن سسٹم کو استعمال کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں