وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترمیمی آرڈیننس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ترمیم کی بدولت ٹیکس کے تمام معاملات نیب نہیں بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) دیکھے گا۔

وفاقی وزیر مراد سعید کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ طریقہ کار کا نقص نیب کا دائرہ کار نہیں بنتا اس میں محکمانہ کارروائی بنتی ہے جبکہ نیب کا کام کرپشن کی روک تھام ہے، اداروں کی اصلاح کرنا نہیں۔

مزید پڑھیں: 'نیب کے قانون میں ترمیم کا مقصد پی ٹی آئی کے فنانسرز کو بچانا ہے'

شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ مذکورہ ترمیم کے تحت جس شخص کا پبلک آفس ہولڈر سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا تو اس پر نیب قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور اسی طرح لیوی، امپورٹ اور ٹیکس کیس کو نیب نہیں دیکھے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'وفاقی اور صوبائی کوئی بھی ٹیکس کیس، نیب کے دائرہ کار سے باہر ہوگا لیکن ٹیکس کیس ایف بی آر دیکھے گا اور مجرم پر فوجداری قانون کے تحت سزا ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ضمانت اور ریمانڈ کا قانون تبدیل نہیں ہوا'۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ 'میں چھٹیوں پر تھا اور اب نیب قوانین میں ترمیم سے متعلق کنفیوژن کو دور کرنے آیا ہوں'۔

علاوہ ازیں انہوں نے تصدیق کی کہ 'آرڈیننس کو پارلیمان کے پاس ہی جانا ہے اور گزشتہ 10 برس میں نیب قوانین میں تبدیلی کی خواہشات بدنیتی پر مبنی تھیں جن پر عمل نہ ہوا'۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت کا نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ، کابینہ سے منظوری بھی مل گئی‘

شہزاد اکبر نے کہا کہ 'نیب ترمیمی ڈرافٹ دیکھے بغیر تنقید کی جارہی ہے، معاشرے میں کرپشن کا ناسور پھیلا ہے اور اس کی درستی کے لیے سخت قوانین کی ہی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'صرف فیصلہ کرنے کی وجہ سے کسی کا کیس نیب میں آتا تھا تو وہ زیادتی تھی'۔

معاون خصوصی برائے احتساب نے پاکستان میں احتساب قانون سخت ہونے کا دعویٰ کیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 12 میں سے ایک شق اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہے اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق وضاحت ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایسا نہیں ہے کہ نیب ترمیمی قانون پاس ہونے کے بعد کسی ٹیکس چور کو رعایت مل جائے گی بلکہ وہ معاملہ متعلقہ ادارہ دیکھے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے، سپریم کورٹ

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ '4 صفحات پر مشتمل ترمیمی آرڈیننس کا سیکشن 4 بتائے گا کہ قانون کا اطلاق کہاں ہوگا'۔

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ 'نیب ترمیمی قانون سے کسی کو اس حکومت سے ذاتی فائدہ نہیں مل سکتا اس لیے احتساب کا عمل ختم ہونے کا تاثر بھی غلط ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ٹیکسیشن کے تمام معاملات ایف بی آر دیکھے گا تاہم ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں'۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ نیب کے بعد ایف بی آر کے لیے بھی ایسے ہی عمل کا آغاز کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب قانون کا دو طرح کے افراد اور ٹرانزیکشن پر اطلاق نہیں ہوگا جبکہ جہاں لفظ کرپشن آئے گا وہ اب بھی نیب کی دسترس میں ہوگا'۔

معاون خصوصی برائے احتساب نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے حوالے سے کہا کہ انتظار ہے کہ وہ لندن سے واپس آئیں گے اور مجھے عدالت لے کر جائیں گے۔

مزیدپڑھیں: وزارت قانون کا 100 روز کا ایجنڈا مکمل، قانونی پیکج تیار کرلیا گیا

واضح رہے کہ 14 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے زلزلہ متاثرین کے فنڈز میں مبینہ چوری سے متعلق برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کی خبر پر اخبار، وزیراعظم عمران خان اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 'ابو بچاؤ مہم پر کوئی تعاون نہیں ہوسکتا'.

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ 'اثاثوں کی مالیت کا تعین ڈی سی ریٹ پر ہوگا یا ایف بی آر کرے گا اور تمام بڑے شہروں میں پراپرٹیز کے ایف بی آر ریٹس تقریباً مارکیٹ ریٹ کے برابر ہیں'۔

نیب ترمیمی آرڈیننس

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ و ملک میں تاجر برادری کا ایک بڑا مسئلہ قومی احتساب بیورو کی مداخلت تھی تاہم آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے علیحدہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی اسکروٹنی کرنی چاہیے، نیب تاجر برادری کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی'۔

نیب آرڈیننس میں کی گئیں کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا ہے، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری یا تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔

بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ایک ترمیم کے مطابق ’متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔

اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کردیا جائے گا‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

ali Dec 30, 2019 06:36am
the power of bureaucracy is evidant here.