سعودی عرب: نامناسب لباس پہننے اور ہراسانی کے الزام میں 200 سے زائد افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2019
پولیس نے گرفتاریوں کی مدت سے متعلق مزید کوئی تفصیلات بیان نہیں کیں— فائل فوٹو: ٹوئٹر
پولیس نے گرفتاریوں کی مدت سے متعلق مزید کوئی تفصیلات بیان نہیں کیں— فائل فوٹو: ٹوئٹر

سعودی عرب میں سماجی اقدار میں نرمی کے بعد پہلے کریک ڈاؤن میں 200 سے زائد افراد کو نامناسب لباس پہننے اور ہراساں کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ریاض کی پولیس نے سماج رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے مختلف ٹوئٹس میں کہا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران 120 خواتین اور مردوں کو ’ نامناسب لباس‘ پہننے سمیت عوامی اخلاقیات کو مجروح کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔

ٹوئٹس میں مزید کہا گہا کہ خلاف ورزی کرنے والے افراد پر غیر متعین کردہ جرمانے عائد کیے گئے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا مستقبل کا شہر دنیا کو دنگ کردے گا

دوسری جانب پولیس نے علیحدہ بیانات میں کہا کہ کئی خواتین کی جانب سے سوشل میڈیا پر شکایت کی گئی تھی کہ انہیں ریاض میں ایم ڈی ایل بیسٹ فیسٹیول کے دوران ہراساں کیا گیا تھا جس کے بعد ہراسانی کے مختلف کیسز میں 88 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ریاض میں منعقد کیے گئے الیکٹرانک میوزک فیسٹیول میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی جسے منتظمین نے سعودی عرب کا سب سے بڑا میوزک فیسٹیول قرار دیا تھا۔

تاہم پولیس نے گرفتاریوں کی مدت سے متعلق مزید کوئی تفصیلات بیان نہیں کیں۔

واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب میں سوشل میڈیا پر پابندیوں میں کمی، سنیما پر دہائیوں سے لگی پابندی ہٹانے، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے اور اسپورٹس فیسٹیول میں شرکت کی اجازت دینے کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا کریک ڈاؤن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کے دوسرے بڑے شہر میں بھی سینما کھل گیا

ٹورازم اتھارٹی کی انگریزی زبان کی ویب سائٹ پر جاری ہدایت میں کہا گیا کہ مرد اور خواتین تنگ لباس پہننے یا کسی گستاخانہ زبان یا تصاویر پر مبنی لباس پہننے سے گریز کریں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے کندھوں اور گھٹنوں کا ڈھانپنا چاہیے‘۔

عوامی شائستگی سے متعلق ہدایات اپریل میں کابینہ کی جانب سے منظور کی گئیں تھیں جنہیں بڑے پیمانے پر مبہم سمجھا گیا تھا اور اس سے عوام میں تشویش پیدا ہوگئی تھی کہ اس کی تشریح کی جائے گی۔

اس کے علاوہ عوام میں ’اخلاقیات کی پالیسی ‘ کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں