وقت کی برق رفتار ’ریل گاڑی‘ زمانے کی پٹری پر سرپٹ دوڑے چلی جا رہی ہے۔ یہ ’ریل‘ مستقل جہاں بہت سے نئے مسافروں کو سوار کررہی ہے، وہیں بہت تیزی سے اپنے راہیوں کو اتارتی بھی چلی جا رہی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کس کا ’اسٹیشن‘ کب آجائے۔

یہ عمر اور طوالت، سچ پوچھیے تو فقط ہمارے دل کے بہلاوے کے سوا کچھ بھی نہیں جو بھی ہے بس آج ہی ہے اور آج بھی وہ ہے جو ابھی ہے، اور موجود ہے اور بس!

جانے والوں نے جانا ہی ہوتا ہے، اور ان کے پیچھے رہ جانے والے جب تک رہتے ہیں، جانے والوں کی کچھ کچھ یادیں بھی باقی رہتی ہیں، مگر ’وقت کی ریل گاڑی‘ ایسی ہے کہ اب تو معلوم ہوتا ہے کہ چُٹکی بجاتے ہی رہ جانے والے بھی اپنے رفتگان کو بھولے جاتے ہیں یہاں تو ہم رہ جانے والوں کی کوئی خبر نہیں لیتے، تو چلے جانے والوں کے لیے بھلا اپنا جی کون ’خراب‘ کرے!

مزید پڑھیے: جب اخبارات کا ’ضمیمہ‘ بھی آتا تھا

ہمارے ’ابلاغ عامہ‘ کے ہر دل عزیز استاد محترم جناب انعام باری صاحب 27 اور 28 دسمبر کی درمیانی شب اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ نہ جانے انہیں کیا محسوس ہوا تھا کہ انہوں نے 2 ماہ پہلے ہی ’فیس بک‘ پر 30 اکتوبر کو اپنے جنم دن پر ہی لکھ دیا تھا: ’میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گُم تھا مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے!‘

اور ہم سب نے سادگی اور متانت کے ساتھ علمیت کی حلاوت اور شائستگی اپنے اندر سموئے ہوئے انعام باری کی صحت و عافیت کے لیے دعائیں نذر کی تھیں۔ یہ خاکسار اس اتفاق پر بھی ناز کرسکتا ہے کہ یہ بھی انعام باری کی سالگرہ کے دن ہی اس دنیا میں جَنما!

ہم دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے یہ لفاظیاں کہ ’وہ بہت اچھے تھے‘ اور ’ان کا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا‘ وغیرہ جیسے چلن کو بہت بھونڈا سمجھتے ہیں اور ’بات برائے بات‘ کرکے اپنے لفظ اور اپنے قارئین کی قرأت میں وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتے لیکن صاحب، اس آپا دھاپی میں یہ ضروری ہے کہ اس بے حس سماج کو صحرا ہوتی ہوئی اس دنیا میں کسی شجر سایہ دار سے محرومی کو تو اجاگر کیا جائے، اہل دل کو جھنجوڑا جائے اور اس چلی جانے والی روح کی جانب سے اس معاشرے کو دی جانے والی چھاﺅں اور روشنیوں پر خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔

ہم کبھی انعام باری صاحب کے شاگرد نہیں رہے، اس لیے صرف یہ سوچ ہی سکتے ہیں کہ ان کا اندازِ تدریس کتنا دل آویز ہوتا ہوگا لیکن چونکہ ’ابلاغ عامہ‘ کے طالب علم ہیں، اس لیے ہمارے اساتذہ کی کہکشاں سے لے کر حلقہ احباب تک ایسے اَن گنت لوگ موجود ہیں، جنہوں نے سر انعام باری سے استفادہ کیا گویا وہ ایک ایسے آفتاب تھے، جس کے اجالے بہت سے ’ماہتابوں‘ سے منعکس ہوکر ہمارے جہل میں کچھ کمی کا باعث بنے۔

ہمارا ان سے غائبانہ تعارف تو بہت پہلے سے تھا، پھر شرفِ ملاقات بھی متعدد مرتبہ رہا۔ 2012ء سے ہمارے ساتھ ’فیس بک‘ پر رہے، چند برس قبل ’ایم فل‘ کے کورس ورک کے دوران کئی بار ہم اسٹاف روم میں جاکر ان سے چیزیں پوچھ لیا کرتے تھے۔

یوں تو وہ ’ریڈیو براڈکاسٹنگ‘ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے، لیکن ہم نے ’ابلاغیات‘ سے متعلق مختلف قوانین اور ضابطہ اخلاق کی الجھی گتھیاں سلجھانے کے لیے انہیں کئی بار زحمت دی۔ کئی بار تو انہیں بے دھڑک کال بھی کی اور انہوں نے ہمیں ٹھیک سے نہ پہچان پانے کے باوجود ہمیشہ ہمیں پوری طرح وقت دیا۔

بلند قامت اور ایک مضبوط جثے کے حامل انعام باری ایک نہایت پُروقار شخصیت کے حامل تھے، جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ مختلف تعلیمی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے، جہاں ان کے اردگرد کچھ تنازعات بھی رونما ہوئے لیکن انہوں نے کبھی اپنی شخصیت کو متنازع نہیں ہونے دیا۔

جامعہ کراچی سے ان کی تدریس کا ناتا شدید علیل ہونے تک جاری رہا لیکن پھر ڈائیلیسز شروع ہونے کے بعد انہوں نے معذرت کرلی۔

اسی برس ستمبر کی 16 یا 17 تاریخ کی بات ہے، جب ہمارے اخبار میں لیے گئے ایک انٹرویو کی کہیں اور اشاعت پر اخلاقی اور قانونی تقاضے جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو ہم نے سر انعام باری کو فون کیا۔ انہوں نے حسبِ عادت ہماری معاونت کی، بلکہ وہ ہمارا نام سن کر تعریف کرتے ہوئے بولے کہ وہ ہماری تحریریں اور انٹرویوز وغیرہ پڑھتے ہیں۔ ایسے موقع پر ہمارے پاس الفاظ گُم ہوجاتے ہیں، سو اس بار بھی ہم عجیب سی کیفیت میں گنگ ہوگئے۔

مزید پڑھیے: ہم صحافی بھی رو دیتے ہیں!

وہ نام سے تو ہمارا تعارف رکھتے تھے، لیکن چہرے سے یاد نہیں کر پا رہے تھے، بولے: ’بیٹا، میری طبعیت ٹھیک نہیں، میں ڈائیلیسز پر ہوں، ورنہ میں ضرور آپ سے ملنے آتا!‘۔ جب انہوں نے یہ کلمات ادا کیے تو ہم جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور عرض کیا ’سر، آپ کیوں ہمیں شرمندہ کرتے ہیں، آپ ہمیں حکم کیجیے، ہم حاضر ہوجائیں گے آپ کے پاس!‘

اگر اس روز دفتر میں ضروری کام نہ ہوتا، تو ہم فون رکھتے ہی ان کی طرف ہو لیتے۔ ہم نے فون پر ہی ان کا پتا لیا اور کہا ’سر، بس یہ ذرا ہاتھ کے کام نمٹ لیں، ہم سب سے پہلے آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوں گے۔ انہوں نے جامعہ کراچی کے عقب میں قائم سوسائٹی میں اپنی رہائش کا پتا دے دیا۔ جب اپنے نمبر سے انہیں میسج کیا، تو پھر اظہارِ مسرت کیا اور ہمیں دعائیں دیں۔

ہمارے ذہن کے پردے پر وہ منظر ابھرا جب آرٹس کونسل میں اس درویش استاد کو جی کھول کر اپنے ایک شاگرد کی تعریف کرتے ہوئے دیکھا، تو ہم وہیں کونے میں دَبکے ہوئے اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کاش وہ ہمارے لکھے ہوئے پر بھی کچھ فرمائیں اور آج ہمیں یہ اعزاز اس طرح مل رہا تھا کہ ہمارا ایک بوجھل سا دن روزِ عید کی طرح دمکنے لگا، اپنے ہونے کا احساس ہونے لگا اور دل ایک گہری مسرت اور اطمینان سے بھرتا چلا گیا۔

پھر ہمیں وقت نکالنے میں لگ بھگ 2 ہفتے لگ گئے۔ سر انعام سے آنے کی اجازت چاہی، تو انہوں نے فرمایا کہ ’کل بدھ ہے، میں ’ڈیپارٹمنٹ‘ جاﺅں گا، آپ بھی وہیں آجائیں‘۔ سو ہم 2 اکتوبر 2019ء کو انعام باری کی قدم بوسی کو جامعہ کراچی پہنچ گئے۔

وہ شعبہ ابلاغ عامہ کے دفتر میں جلوہ افروز تھے اور نہایت تپاک سے ہم سے ملے۔ اس مختصر سی ملاقات میں رسمی اور غیر رسمی گفتگو رہی۔ انہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے بتایا کہ گھٹنوں کے درد سے نجات کے لیے ایک درد کُش دوا کے مضر اثرات اچانک دونوں گردوں کی خرابی کی صورت میں سامنے آئے جس کے بعد اب انہیں باقاعدگی سے ڈائیلیسز کرانا پڑتا ہے۔ معالجین کی طرف سے انہیں پانی کی بھی بہت تھوڑی مقدار پینے کی اجازت ہے۔

پھر ذرایع ابلاغ کے مستقبل اور ان کی زبوں حالی سے لے کر صحافیوں کی بے روزگاری تک گفتگو رہی۔

انعام باری صاحب نے 1980ء کے اوائل سے ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے یہاں تدریس کا ماجرا بتایا۔ ان کا زمانہ تدریس زیادہ تر ’معاون استاد‘ یا فیکلٹی رکن کے طور پر رہا۔ وہ کافی سال بعد یہاں مستقل ہوئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی برسوں اس شعبے کے طلبا کو مستفید کرتے رہے۔ انہوں نے نہایت فخر سے ہمیں بتایا تھا کہ اس وقت صدرِ شعبہ (ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر) کے علاوہ تمام اساتذہ انہی کے شاگرد ہیں۔

درمیان میں ان کے کچھ عقیدت مند بھی آتے جاتے رہے، غالباً اس روز وہ دیگر اساتذہ کے ہمراہ استادالاساتذہ زکریا ساجد صاحب کے ہاں جانے کا قصد کیے ہوئے تھے۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہماری یہ ملاقات آخری ثابت ہوگی، اور وہ 3 ماہ کے اندر ہی اس بزم سے کوچ کر جائیں گے!

مزید پڑھیے: اردو اپنے آپ بدل جائے گی، اِسے آپ نہ ’بدلیے‘

ایک ہفتے قبل ’فیس بک‘ کی توسط سے ان کے اسپتال داخل ہونے کی اطلاع ملی، پھر بعد میں خیریت جاننے کے لیے انہیں کال کی تو بات نہ ہوسکی۔ 27 دسمبر کی شام بھی 2 مرتبہ کوشش کی، مگر فون مصروف کردیا گیا۔ پھر سوچا کہ میسج پر خیریت پوچھ لیتا ہوں، لیکن ذہن سے ہی نکل گیا اور اگلی صبح جب جاگا، تو یہ افسوسناک خبر ملی کہ انعام باری صاحب تو رات ہی کو اس بے اَنت ندیا میں اتر چکے ہیں، جہاں باری باری ہم سب ہی چلتے چلے جائیں گے!

ایک چمکتی ہوئی صبح ماند پڑگئی دنیا کی ویرانیوں میں اور اضافہ ہوگیا ایک اور گھنے پیڑ جیسی ہستی چُپکے سے دھرتی کے سینے میں جاکر سوگئی۔ علمیت، انسان دوستی اور شائستگی کے گھٹتے ہوئے قبیلے کا ایک اور فرد ہمیشہ کے لیے کھو گیا۔

ہمیں یاد آیا کہ 2 اکتوبر 2019ء کو ہم نے انعام باری صاحب سے اجازت لیتے ہوتے ہوئے ایک کارڈ پر ان سے اپنا نام لکھوا کر دستخط کرائے تھے۔ ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کے ساتھ ان جیسے منسکر المزاج اور نرم دل استاد کی انگلیوں کا لمس ہمارے پاس کسی خزانے کی صورت محفوظ ہوگیا ہے۔

کارڈ پر لیا گیا دستخط—فوٹو: لکھاری
کارڈ پر لیا گیا دستخط—فوٹو: لکھاری

آج بلا مبالغہ ان سے زانوئے تلمذ طے کیے ہوئے سیکڑوں صحافی ملک کے درجنوں ابلاغی اداروں میں موجود ہیں، کاش، وہ سب اپنی اپنی بساط کے مطابق انعام باری کے پڑھائے ہوئے صحافتی اخلاقیات کے سبق کو عملی راہ بنالیں، تو ایک استاد کے لیے اس سے بہتر صدقہ جاریہ اور بھلا کیا ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں