سعودی عرب میں شادی کے لیے پہلی بار عمر کی حد مقرر

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2020
نئے قانون سے قبل شادی کےلیے عمر کی کوئی مخصوص حد مقرر نہیں تھی—فائل فوٹو: عرب لوکل
نئے قانون سے قبل شادی کےلیے عمر کی کوئی مخصوص حد مقرر نہیں تھی—فائل فوٹو: عرب لوکل

سعودی عرب کی حکومت نے شادی کرنے کے لیے نئی قانون سازی کرتے ہوئے پہلی بار عمر کا تعین کرتے ہوئے شادی کے لیے عمر کی حد 18 سال مقرر کردی۔

سعودی عرب میں نئی قانون سازی سے قبل شادی کے لیے کوئی مخصوص عمر کا تعین نہیں تھا اور کئی واقعات میں لڑکیوں کی شادی 15 سال سے کم عمری میں بھی کرائی جاتی تھیں۔

اسی طرح لڑکوں کے لیے بھی شادی کی عمر کی کوئی خاص حد مقرر نہیں تھی، تاہم اب پہلی بار شادی کے لیے عمر کی حد کا تعین کردیا گیا۔

عرب اخبار ’دی نیشنل‘ کے مطابق چائلڈ میرج کے نئے قانون کے لیے کئی ماہ سے قانون سازی جاری تھی، تاہم وزارت انصاف نئے نئی قانون سازی سے متعلق ہدایات جاری کردیں۔

رپورٹ کے مطابق چائلڈ میرج پروٹیکشن نامی بل کو سعودی شوریٰ کونسل نے پاس کیا اور اس بل پر گزشتہ کئی ماہ سے قانون سازی جاری تھی۔

نئی قانون سازی کو خواتین کی خودمختاری کی جانب قدم قرار دیا جا رہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
نئی قانون سازی کو خواتین کی خودمختاری کی جانب قدم قرار دیا جا رہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

قانون کو منظور کیے جانے کے بعد سعودی عرب کی وزارت انصاف نے تمام عدالتوں کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کردی گئی ہے۔

شادی کے لیے 18 سال کی عمر کا شرط لڑکوں سمیت لڑکیوں پر بھی ہوگا۔

نئی قانون سازی کے تحت وزارت انصاف نے عدالتوں کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اگر عدالتوں کو کسی کی جانب سے 18 سال کی عمر سے قبل شادی کی درخواست موصول ہوتی ہے تو وہ مذکورہ درخواست خصوصی کمیٹی کے پاس بھجوائیں۔

وزارت انصاف کی جانب سے چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی کمیٹی 18 سال سے قبل شادی کی درخواست کو دیکھنے کے بعد انہیں قانونی طور پر شادی کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرے گی۔

نئے قانون میں عدالتوں اور حکام کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کس طرح بھی شادی کرنے والے لڑکے یا لڑکی کی عمر 15 سال سے کم نہ ہو۔

نئے قانون کے مطابق کسی بھی صورت میں 15 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی—فوٹو: اے ایف پی
نئے قانون کے مطابق کسی بھی صورت میں 15 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کی جا سکتی—فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ سعودی حکومت نے کم عمری میں شادیوں کو روکنے کے لیے جنوری 2019 سے قانون سازی کا آغاز کیا تھا اور چائلڈ میرج ایکٹ کے بل کو شوریٰ کونسل میں بھجوایا گیا تھا۔

شادی ایکٹ کے بل پر قانون سازی کے لیے شوریٰ کونسل کو لگ بھگ ایک سال کا وقت لگا۔

نئی قانون سازی کے تحت شادی کرنے والی لڑکیوں کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ شادی ختم کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کر سکیں گی۔

ساتھ ہی خواتین کو بچوں کا پیدائشی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور انہیں اپنے بچوں کے کفیل ہونے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔

خواتین کو شادی ختم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی دے دیا گیا—فوٹو: اے پی
خواتین کو شادی ختم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی دے دیا گیا—فوٹو: اے پی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں