شمالی افغانستان میں طالبان کا حملہ، 14افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2020
حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے جن میں حکومت کی حامی ملیشیا کے 13اراکین بھی شامل تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی
حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے جن میں حکومت کی حامی ملیشیا کے 13اراکین بھی شامل تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی

طالبان نے شمالی افغانستان میں حکومت کے حامی ملیشیا کے کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے 14 افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق طلوع سحر سے قبل صوبہ جوزجان میں کیے گئے حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی ہے جس میں متعدد اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان رہنما نے جنگ بندی پر رضامند ہونے کو ’افواہ‘ قرار دے دیا

واضح رہے کہ یہ خبر ایک موقع پر سامنے آئی ہے جب چند گھنٹے قبل ہی یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ طالبان کونسل افغانستان میں جنگ بندی پر رضامند ہو گئی ہے لیکن بعدازاں طالبان نے ان افواہوں کی تردید کردی گئی تھی۔

صوبہ جوزجان کے گورنر کے ترجمان عبدالمعروف آزر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ علی الصبح کیے گئے اس حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے جن میں حکومت کی حامی ملیشیا کے 13 اراکین اور ایک پولیس اہلکار شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حملے میں ملیشیا کے 5 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ دو لاپتہ ہیں، بعد ازاں مزید نفری ملنے کے بعد حکومت نے کمپاؤنڈ کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ادھر امریکی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے اور افغان فوج کے مشترکہ آپریشن میں 30 طالبان شدت پسند ہلاک اور متعدد کو حراست میں لے لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں مقامی ملیشیا کے 17 ارکان ہلاک

حالیہ عرصے کے دوران شمالی افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جہاں اتوار کو صوبہ تخار میں طالبان کے حملے میں مقامی ملیشیا کے 17 جنگجو ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد کیا ہوا؟

یاد رہے کہ گزشتہ برس 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔

ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔

لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں