کراچی: سینئر صحافی کو 5 سال قید، فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2019
کراچی پریس کلب کے رکن نصراللہ چوہدری کو نومبر 2018 میں حراست میں بھی لیا گیا تھا—فائل/فوٹو:ڈان
کراچی پریس کلب کے رکن نصراللہ چوہدری کو نومبر 2018 میں حراست میں بھی لیا گیا تھا—فائل/فوٹو:ڈان

سینئر صحافی نصراللہ چوہدری نے کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے ممنوع لٹریچر رکھنے کے الزام میں سنائی گئی 5 سال قید کی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

کراچی پریس کلب کے رکن اور سینئر صحافی نصراللہ چوہدری نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بنیادی قانون کے اصول کے برخلاف اور حقائق کے منافی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج منیر بھٹو نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں 26 دسمبر 2019 کو نصراللہ چوہدری کو مبینہ طور پر ممنوع لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5 سال قید، 10 ہزار جرمانہ جبکہ عدم ادائیگی کی صورت میں مزید ایک ماہ سزا کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:اداریہ: صحافی کی بغیر ثبوت گرفتاری غیر منصفانہ ہے

خصوصی عدالت نے انہیں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم سے رابطے پر 6 ماہ قید اور 5 ہزار روپے جرمانہ جبکہ عدم ادائیگی کی صورت میں مزید 15 روز جیل کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے سزا مکمل کرنے کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا تاہم تمام سزائیں ایک ساتھ لاگو ہوں گی۔

سنیئر صحافی اردو اخبار ‘نئی بات’ سے منسلک ہیں اور انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں کہا ہے کہ سادہ لباس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے 7 نومبر 2018 کو کراچی پریس کلب میں غیر قانونی داخل ہو کر صحافیوں کو ہراساں کیا اور دھمکایا جبکہ صحافیوں کے احتجاج کے بعد 8 نومبر 2018 کی شب انہیں سادہ لباس اہلکاروں نے گھر سے غیر قانونی حراست میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس اقدام پر بھرپور احتجاج کیا گیا جبکہ سی ٹی ڈی نے تین روز تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں نامزد کردیا۔

مزید پڑھیں:ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام: سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کی ضمانت منظور

اپیل میں انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور ان کے خلاف ممنوع لٹریچر سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

سندھ ہائی کورٹ سے انہوں نے اپیل میں کہا کہ ان کی گرفتار ی اور غیر قانونی حراست پر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور عدالت نے ان کی غیر قانونی حراست کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سزا سنائی ہے۔

قبل ازیں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج نے سینٹرل جیل میں 21 دسمبر کو دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 26 دسمبر کو سنایا گیا تھا۔

سینئر صحافی نصراللہ چوہدری نے انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے دوران تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حق میں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ بے گنا ہیں اور تمام الزامات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے جبکہ ان کے قبضے سے ممنوع لٹریچر بھی برآمد نہیں ہوا۔

دوسری جانب سرکاری پراسیکیوٹر فرحانہ پروین نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تفتیش کے دوران ان کے قبضے سے ممنوع لٹریچر برآمد کیا اور انہوں نے اعترافی بیان بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیں:صحافی نصراللہ خان کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں پیش

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے کالعدم تنظیم کے دہشت گرد سے رابطے تھے اور ان کے قبضے سے میگزین برآمد ہوئے ہیں جو جرم ہے۔

نصراللہ چوہدری کے وکیل محمد فاروق نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے موکل سینئر صحافی ہیں اور انہیں 9 نومبر 2018 کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں سی ٹی ڈی کے حوالے سے کیا گیا جس نے انہیں کیس میں ملوث کردیا۔

انہوں نے پراسیکیوٹر کے بیان میں واضح تضادات ہیں اس لیے میرے موکل کو جھوٹے اور جعلی کیس سے بری کردیا جائے۔

سرکاری پراسیکیوٹر کی جانب سے دائر کیس میں کالعدم تنطیم کے دہشت گرد کو نہ تو ملزم نامزد کیا گیا اور نہ ہی مفرور کے طور پر چارج شیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں