'ایرانی کمانڈر پر حملے میں امریکا نے سعودی عرب سے مشاورت نہیں کی'

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
قاسم سلیمانی 1998 میں قدس فورس کے سربراہ بنے تھے —تصویر: اے پی
قاسم سلیمانی 1998 میں قدس فورس کے سربراہ بنے تھے —تصویر: اے پی

سعودی عرب نے واضح کردیا ہے کہ بغداد میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی پرحملے سے قبل امریکانے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی۔

خبر ایجنسی اےایف پی نے سعودی عرب کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ 'امریکی حملے سے متعلق سعودی عرب کی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی تھی'۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ 'سعودی عرب نے خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں کشیدگی کا باعث بننے والی تمام سرگرمیوں کو روکنے پر زور دیا اور کہا کہ اس کے نتائج سنگین مرتب ہوسکتے ہیں'۔

مزیدپڑھیں: ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کا جسد خاکی ایران منتقل

دوسری جانب سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات پر ضرورت پر زور دیا۔

مقامی اخبار کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے چھوٹے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ چند روز میں امریکا اور برطانیہ کا دورہ کریں اور کشیدگی روکنے پر زور دیں۔

اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ خالد بن سلمان وائٹ ہاؤس اور امریکی دفاعی عہدیداروں سے بھی ملاقات کریں گے۔

واضح رہے کہ 3 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’قاسم سلیمانی عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں متحرک تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایران نے علامتی سرخ جھنڈا لہرا دیا

دوسری جانب ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جمکران مسجد کے کنبد پر سرخ پرچم لہرا دیا۔

واضح رہے کہ قدیم ایرانی تہذیب میں سرخ پرچم لہرنے کا مقصد 'جنگ یا جنگ کی تیاری' سمجھا جاتا تھا۔

خیال رہے کہ ایران کے جنوبی صوبہ کرمان میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل غلام علی ابوحمزہ نے دھمکی دی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے امریکی اہداف کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور 'خطے میں 35 اہم امریکی اہداف ایران کے دسترس میں ہیں اور امریکا کا دل اور زندگی تل ابیب بھی ہماری پہنچ میں ہے'۔

بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا لیڈر پر کیے گئے ڈرون حملے کے بدلے میں امریکیوں یا امریکی اثاثوں پر حملے کی جوابی کارروائی کرنے پر ایران کو 52 ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔

ایرانی جنرل کی ہلاکت

خیال رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔

بعدازاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ان کے نائب اسمٰعیل قاآنی کو پاسداران انقلاب کی قدس فورس کا سربراہ مقرر کردیا تھا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا تھا اور ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: عراق: پیرا ملٹری دستوں کی مظاہرین سے امریکی سفارتخانے سے نکلنے کی درخواست

دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو بہت پہلے ہی قتل کر دینا چاہیے تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں کہا تھا کہ قاسم سلیمانی سے 'بہت سال پہلے ہی نمٹ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کو مارنے کی سازش کر رہے تھے لیکن وہ پکڑے گئے'۔

علاوہ ازیں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کا مقصد ایک 'انتہائی حملے' کو روکنا تھا جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو خطرہ لاحق تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مائیک پومپیو نے 'فاکس نیوز' اور 'سی این این' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'مبینہ خطرے' کی تفصیلات پر بات کرنے سے گریز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں