چوہدری برادران کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات، آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر گفتگو

اپ ڈیٹ 06 جنوری 2020
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ نے مولانا فضل الرحمٰن سے اہم بلوں پر فیصلہ تبدیل کرنے کی درخواست کی — فوٹو: جاوید حسین
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ نے مولانا فضل الرحمٰن سے اہم بلوں پر فیصلہ تبدیل کرنے کی درخواست کی — فوٹو: جاوید حسین

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور ان سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اہم بلوں پر فیصلہ تبدیل کرنے کی درخواست کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چوہدری برادران، جن کی جماعت حکمراں جماعت تحریک انصاف کی پنجاب اور وفاق میں اتحادی بھی ہے، انہوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ان کی یہ ملاقات ایسے وقت میں سامنے آئی جب ایک روز قبل مولانا فضل الرحمٰن نے شکایت کی تھی کہ حکومت نے بل کے مسودے پر کسی بھی مرحلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔

مذکورہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم نے چوہدری برادران کو بتادیا ہے کہ بلوں کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ ہمارا آخری ہے اور وہ اس بات پر مشورہ کر رہے ہیں کہ بل کی مخالفت میں ووٹ دیں یا اس مرحلے سے دور رہیں۔

مزید پڑھیں: جے یو آئی کی مجلس عاملہ کا آرمی ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت کا فیصلہ

انہوں نے حکومت کی جانب سے جلد بازی کا مظاہرہ کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے قوانین میں ترمیم کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا ہے جو ملک میں نئے انتخابات کرانے کے لیے کافی ہے تاکہ اس اہم قانون سازی کو ایک 'حقیقی اسمبلی' سرانجام دے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کو بتادیا ہے کہ بل کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ ان کی جماعت کے پارلیمانی گروپ اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی دونوں کا ہے۔

اپنی جماعت کے فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کا ماننا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی 'دھاندلی' سے منتخب ہوئی ہے اور ایسی اہم قانون سازی کا اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزشین جماعتوں نے انتخابات کے نتائج 25 جولائی 2018 کو ہی مسترد کردیے تھے اس لیے اب ہم اس 'جعلی اسمبلی' کو اتنے اہم قومی امور پر قانون بنانے نہیں دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ’مولانا فضل الرحمٰن محب وطن ہیں، ملک سے وفاداری ان کے خون میں شامل ہے‘

خیال رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا تھا، اس کے علاوہ پاک فضائیہ اور بحریہ کے ایکٹ میں ترمیم کے بل بھی پیش کیے گئے تھے۔

ان قوانین کی منظوری کے بعد تینوں سروسز چیف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ریٹائرمنٹ کی عمر 64 سال ہوجائے گی جس کے بعد وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ ان میں سے کسی کی بھی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں اور صدر کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ اسے منظور کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں