یہ کل ملاکر ڈھائی گھنٹے کا ’کھیل‘ تھا۔ اس کھیل کو کھیلنے کے لیے تمام رولز معطل کرکے بل پیش کیے گئے، جس کا عمل 4 منٹ کا تھا۔ اس کے بعد اسی روز مشترکہ قائمہ کمیٹی نے بھی کمال تیزی کے ساتھ بغیر کسی اعتراض کے یہ بل منظور کرلیا اور قومی اسمبلی سے باہر آکر وزیرِ قانون قوم کو مبارک دے رہے تھے۔

جب بل پاس کرانے کا عمل شروع ہوا تو اجلاس کی کارروائی میں سب کچھ ملا کر 8 منٹ کا وقت لگا۔ قومی سلامتی کے نام پر کسی نے بلواسطہ تو کسی نے بلاواسطہ اپنا حصہ ڈالا۔ مسلم لیگ (ن) نے غیر مشروط حمایت کی تو پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی شدید ترین مخالف حکومت کو ایک بڑی پریشانی سے بچالیا۔

میں آپ کو جو کہانی سنانے جارہا ہوں یہ پاکستان کی پارلیمان کی تیز ترین قانون سازی پر مشتمل ریکارڈ کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہمیں پیغام دیتی ہے کہ یہاں ‘قومی مفاد’ سب کو کتنا عزیز ہوتا ہے۔

پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق قانون سازی سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کی روشنی میں عمل میں لائی گئی ہے۔ اس قانون سازی کے عمل کے بعد حزبِ مخالف کی بڑی جماعتیں جہاں اپنے حامیوں سے منہ چھپاتی پھر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف مخالفین انہیں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔

معلوم نہیں جاتے جاتے آصف سعید کھوسہ صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ جانتے تھے کہ سویلین بالادستی سے متعلق ہمارے نعروں کو بے نقاب کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے باہر نکلنے والے ایک (ن) لیگی رکن بہت ہی جذباتی انداز میں مجھے بتارہے تھے کہ ’بڑے صاحب نے لندن سے فون کرکے کہا ہے کہ جو کہا جارہا ہے وہ کردو، سوال نہ کرو’۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک کے پارلیمانی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ دیوار سے لگائی گئی جس اپوزیشن پر سویلین بالادستی کا سحر طاری ہے، کیا وہ اس بار سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی؟ یا کرسکے گی؟

لیکن ان دنوں ابھی یہ بات واضح نہیں تھی کہ صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوگی یا اس میں آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ اپوزیشن کے مختلف اکابرین سے جب بھی اس بارے میں سوال ہوا تو کہا گیا کہ جب تک حکومت اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتی تب تک وہ بھی اس معاملے پر بات نہیں کریں گے۔ پاکستان میں آئینی اسکالر مانے جانے والے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا بھی یہی مؤقف تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ نومبر کے آخری ہفتے میں آیا تھا، اس لیے امید کی جارہی تھی کہ حکومت دسمبر میں اس معاملے پر تحرک لے گی، لیکن دسمبر کے موسم کی طرح اس معاملے پر بظاہر حکومت کا رویہ بھی بہت ہی سرد محسوس ہوا، لیکن جنوری ایسا نہیں تھا۔

شیڈول کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس جنوری کی 5 یا 6 تاریخ کو ہونا تھا، لیکن اچانک 31 دسمبر کو صدر کی جانب سے یکم جنوری کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔ اس ہنگامی طور پر بلائے جانے والے اجلاس پر پیپلزپارٹی نے شدید شور مچایا کہ 24 گھنٹے سے بھی کم کے نوٹس پر اجلاس میں شرکت ممکن ہی نہیں۔


یکم جنوری: پارلیمانی اجلاس کا پہلا دن


لیکن اس شور کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور یکم جنوری بروز بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جو معمول کے مطابق رہا۔ لیکن ایوان سے باہر خاموشی سے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران سے گفتگو ہوتی رہی اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔


2 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا دوسرا دن


جمعرات 2 جنوری کو مسلم لیگ (ن) لیگ اور حکومت ایک پیج پر تھیں، غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا گیا تھا۔ چونکہ پیپلزپارٹی اب تک خاموش تھی، اس لیے بلاول بھٹو زرداری کی اسلام آباد آمد ہوتے ہی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی وفد زرداری ہاؤس اسلام آباد حاضر ہوگیا، اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر پیپلزپارٹی سے غیر مشروط حمایت کی درخواست کردی۔

اس ملاقات میں رضاربانی بھی موجود تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے رضا ربانی کی طرف اشارہ کرکے حکومتی وفد کو بتایا کہ ‘میرے کانوں میں ابھی بھی ان کے اور اعتزاز احسن کے الفاظ گونج رہے ہیں جو فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے کی گئی آئینی ترمیم پر کہے تھے‘۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو پتہ چل چکا تھا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ان کے مؤقف کی حامی نہیں رہی۔ حکومتی وفد روانہ ہوا تو کچھ دیر بعد بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئیٹ کیا کہ قانون سازی کے لیے پارلیمانی قوائد کی پاسداری ہونی چاہیئے۔


3 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا تیسرا دن


3 جنوری کو صبح سے ہی پارلیمنٹ ہاؤس میں گہما گہمی نظر آئی۔ ایک طرف حکومتی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہورہا تھا تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے (ن) لیگ کی دغا بازی کا رونا رو رہے تھے۔

‘یہ مومن پیپلزپارٹی ہر بار (ن) لیگ کے سوراخ سے ہی کیوں خود کو ڈسواتی ہے’، میڈیا ٹاک ختم ہونے کے بعد میں نے بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا۔ ابھی وہ جواب سوچ ہی رہے تھے کہ اسی لمحے ان کے سیاسی معاون جمیل سومرو نے کہا ‘دوسرا راستہ نہیں ہے’۔

جس وقت بلاول بھٹو زرداری اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کررہے تھے اس وقت جے یو آئی (ف) کا ایک اجلاس مولانا عبدالغفور حیدری کی صدارت میں جاری تھا۔ اس اجلاس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کرنے یا نہ کرنے پر مشاورت کی جارہی تھی۔ فیصلہ ہوا کہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا اور پھر مخالفت کا ہی فیصلہ ہوا۔

11 بج کر 47 منٹ پر اجلاس کا آغاز

قومی اسمبلی کا معمول کا اجلاس 11 بجے ہونا تھا لیکن شروع 11 بج کر 47 منٹ پر ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی قومی اسمبلی میں کلوز سرکٹ ٹی وی سسٹم نے کام چھوڑ دیا۔ اس سسٹم کے تحت پارلیمنٹ کے پریس لاؤنج اور قومی اسمبلی کے دفاتر میں ایوان کی کارروائی براہِ راست دکھانے کا عمل رک گیا۔ چند منٹ پہلے ہی پریس لاؤنج میں سیکیورٹی پر مامور عملہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوس ایشن (پی آر اے) کے عہدیداران کو درخواست کرتا رہا کہ صحافیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ پریس گیلری میں اپنے موبائل فون سے تصاویر یا ویڈیو نہ بنائیں۔ کلوز سرکٹ ٹی وی نے کام چھوڑا تو متعلقہ حکام سے اس بارے میں معلومات لی گئیں، اور جواب یہ ملا کہ سسٹم میں اچانک خرابی آگئی ہے۔ لیکن جب منگل کو یہی سب کچھ دہرایا گیا تو پتہ چلا کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔

11 بج کر 55 منٹ

اجلاس کے آغاز میں تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول اور قومی ترانے کی رسم پوری ہوئی۔ 11 بج کر 55 منٹ پر وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے وقفہ سوالات معطل کرنے کے لیے تحریک پیش کی، جو منظور کرلی گئی۔

11 بج کر 58 منٹ

11 بج کر 58 منٹ پر وقفہ سوالات میں جوابات نہ ہونے کا عذر دیکر خواجہ آصف نے اسپیکر سے کہا کہ ان کو آج مؤخر کردیں تاکہ سوال کرنے والوں کا مطمع نظر پورا ہوجائے۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ کل 4 جنوری تک سوالات مؤخر کرتے ہیں۔ اس کے بعد خواجہ آصف نے کہا کہ اسیر ارکان کے لیے ہم نے آپ کو پروڈکشن آرڈرز کے لیے کہا ہے، اہم قانون سازی ہونے جارہی ہے اور اسیر ارکان کا ایوان میں ہونا ضروری ہے، لہٰذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ کل اسیر ارکان ایوان میں موجود ہوں۔ قانون سازی میں ان کو ووٹ کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔

12 بجے

ٹھیک 12 بجے اسپیکر نے وزیرِ دفاع پرویز خٹک کو بل پیش کرنے کی دعوت دی۔ وزیرِ دفاع نے 3 منٹ میں 3 بل پیش کردیے اور قومی اسمبلی کا اجلاس اگلے دن ہفتے کو چھٹی ہونے کے باوجود صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اہم قانون سازی پر قومی اسمبلی کے اجلاس کا دورانیہ مختصر رہا، اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بلز پر پارلیمانی روایت کے تحت قائمہ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس 2 بجے طلب کیا گیا ہے۔ روایات کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جس ایوان میں بل پیش ہو اس کی ہی قائمہ کمیٹی اس بل پر اپنی سفارشات دیتی ہے، لیکن کیونکہ عجلت زیادہ تھی، اس لیے حکومت کی طرف سے سوچا گیا کہ سینیٹ میں بل پیش کرنے سے پہلے ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ارکان کو بھی قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بٹھا کر ان سے رائے لے لی جائے۔

2 بج کر 10 منٹ

2 بج کر 10 منٹ پر کمیٹی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین امجد خان نیازی کمیٹی میں موجود نہیں تھے، اس لیے ان کی جگہ کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد خان سے صدارت کروائی گئی۔ آدھے گھنٹے میں مشترکہ کمیٹی نے بل کی متفقہ منظوری دے دی۔ وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اجلاس کے بعد باہر آکر اس کا اعلان بھی کردیا۔

(ن) لیگ کی جانب سے بل کی غیر مشروط حمایت کے اعلان پر عوامی ردِعمل نے اسے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کردیا تھا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ کی کمیٹی کے پاس بھی جانا چائیے۔

رات 10 بجے

رات کو ساڑھے 10 بجے سینیٹ اور 5 منٹ بعد قومی اسمبلی کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ہفتے کو ہونے والا اجلاس مؤخر کردیا گیا۔ جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کیا کہ جلد بازی ایک نقصان دہ عمل ہے، امید کرتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قانون سازی کے عمل کی حمایت کریں گی۔


6 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا چوتھا دن


پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس ایک بار پھر طلب کرلیا گیا، جس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل دوبارہ غور کے لیے ایجنڈے پر رکھے گئے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بری، بحری اور فضائیہ کے ترمیمی بلز کی منظوری دی گئی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی جانب سے 3 تجاویز پیش کی گئیں تھیں اور حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کو اس ایکٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔


7 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا پانچواں دن


منگل کے دن قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر آرمی ایکٹ میں ترامیم کے تینوں بل ایجنڈے پر رکھ دیے گئے۔

11 بج کر 42 منٹ سے 12 بج کر 8 منٹ تک مختصر مگر تاریخ ساز اجلاس

یہ اجلاس 11 بج کر 42 منٹ پر شروع ہوا اور 12 بج کر 8 منٹ پر ختم ہوگیا۔ یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم رہا کہ اپنی حکومت میں کم ترین شرکت کا ریکارڈ رکھنے والے ہمارے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اپنی موجودگی سے ایوان کو رونق بخشی۔ قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین نے اپنی کمیٹی سے منظور ہونے والے تینوں بلز کی رپورٹ پیش کی۔ جس بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیپلزپارٹی کو اپنی ترامیم واپس لینے کی درخواست کی، جو نوید قمر نے فوری طور پر مان لی۔

اس کے بعد وزیرِ دفاع نے باری باری تینوں بلز پیش کیے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع کے ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ واک آؤٹ کرنے والے ارکان ابھی لابی میں ہی تھے کہ تینوں بل منظور کرلیے گئے اور اجلاس کو ختم کردیا گیا۔

منگل کو اندازہ ہوا کہ جمعہ کو قومی اسمبلی کے کلوز سرکٹ ٹی وی کا نظام اچانک کیوں خراب ہوا تھا۔ درحقیقت گزشتہ پورے ہفتے جو کچھ ہوا، وہ سب ’قومی مفاد‘ میں ہی ہوا۔ مسلم لیگ (ن) نے غیر مشروط حمایت کرکے اپنا کام کیا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی اس اہم قانون سازی کے دوران عجلت کے بجائے پارلیمانی طریقے سے قانون سازی کی تجویز پر عمل کرکے حکومت نے قانون سازی کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا۔ مختصراً سب کا کام ہوگیا، اور سب ہی خوش ہیں!

تبصرے (3) بند ہیں

ahMED Jan 08, 2020 05:39pm
Big hands for our so-called leadership. And salute to their unity for this noble cause. RIP common people (AWAM) issues.
honorable Jan 09, 2020 08:49am
every thing was buldozed
honorable Jan 09, 2020 07:20pm
so many people were black mailed. otherwise not possible.