سینیٹ میں بھی آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز کثرت رائے سے منظور

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2020
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی پاکستان آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہونے والے سینیٹ اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ، وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی و دیگر اراکین موجود تھے تاہم سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایوان میں موجود نہیں تھے۔

آج ہونے والے سینیٹ اجلاس کا سب سے اہم معاملہ سروسز ایکٹ ترامیمی بلز کی منظوری کے لیے رائے شماری تھا، جہاں مذکورہ بلز کی شق وار منظوری لی گئی۔

واضح رہے کہ ایوان بالا میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بلز پیش کیے گئے تھے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے مذکورہ بلز پیش کیے—فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیر دفاع پرویز خٹک نے مذکورہ بلز پیش کیے—فوٹو: اسکرین شاٹ

مذکورہ ترامیمی بلز کو پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2020، پاکستان نیوی (ترمیمی) بل 2020 اور پاکستان ایئر فورس (ترمیمی) بل 2020 کے نام دیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ 7 جنوری کو قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹ ترامیمی بلز 2020 کی منظوری کے بعد انہیں سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں گئے تھے، جہاں اس کی منظوری دی گئی تھی۔

بعد ازاں آج اجلاس میں سینیٹر ولید اقبال نے قائمہ کمیٹی دفاع کی تینوں ترامیمی بلز سے متعلق رپورٹ پیش کیں۔

علاوہ ازیں وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان آرمی، ایئرفورس اور نیوی ایکٹس ترامیمی بلز کو پیش کیا گیا، جہاں اس پر شق وار منظوری لی گئی اور ایوان میں موجود اراکین نے کثرت رائے سے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

ایوان میں ان ترامیمی بلز کو پیش کرنے کے وقت نیشنل پارٹی کے 4 سینیٹرز نے مخالفت کی جبکہ ایک سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے بل کی حمایت کی۔

اس کے علاوہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

تاہم کثرت رائے سے ان تینوں بلز کی منظوری کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کا اجلاس جمعہ 10 جنوری کو صبح 10.30 بجے تک ملتوی کردیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سینیٹ کی یہ پوری کارروائی صرف 20 منٹ میں مکمل کی گئی اور ایوان میں کسی دوسرے ایجنڈے پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟

پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔

اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

پیش کردہ بل کے مطابق آرمی ایکٹ میں دفعہ 8 اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف شامل کیے جائیں گے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور عمر کے حوالے سے دفعہ 8 سی کہتی ہے کہ: اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی جنرل کی مقررہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور مدت ملازمت کی کم از کم عمر کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کی مدت، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے دوران نہیں ہوگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 سال ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم: پارلیمانی طریقہ اپنایا جائے گا تو حمایت کریں گے، بلاول بھٹو

اس عرصے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف، پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

دفعہ 8 اے (بی) کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے شرائط و ضوابط کا تعین صدر مملکت، وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے۔

اس حوالے عہدیدار کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

دفعہ 8 بی (ٹو) کے مطابق اس ایکٹ یا کسی اور قانون میں موجود مواد، کسی حکم یا کسی عدالت کے فیصلے، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، چیئرمین کی توسیع، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، یا اس سلسلے میں کسی کو تعینات کرنے کی صوابدیدی کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔

پس منظر

خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔

سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے اگست میں جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔

بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنی ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں