ٹوئٹر نے 'آن لائن بدسلوکی' کے سدباب کا فیصلہ کر لیا

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2020
کمپنی کی عہدیداروں نے لاس ویگاس میں کنزیومر الیکٹرانکس شو میں اس اقدام کی تفصیلات بتائیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
کمپنی کی عہدیداروں نے لاس ویگاس میں کنزیومر الیکٹرانکس شو میں اس اقدام کی تفصیلات بتائیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹوئٹر' نے اعلان کیا ہے کہ آن لائن بدسلوکی روکنے کے لیے وہ صارفین کو ہی کنٹرول دینے کے طریقوں کا جائزہ لے رہا ہے۔

کمپنی نے اپنے اکاؤنٹ پر ٹوئٹ میں کہا کہ 'ٹوئٹر پر ہونے والی گفتگو کو محفوظ بنانے کے لیے صارفین کو کنٹرول دینا چاہتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: 'آن لائن مذاق اڑانے پر میں خودکشی کا سوچنے لگی تھی'

کمپنی کی جانب سے مزید کہا گیا کہ '2020 کے اوائل میں تجربات کے ذریعے مختلف آپشنز کا جائزہ لیں گے کہ کون ٹوئٹس کا جواب دے سکتا ہے'۔

کمپنی کی عہدیداروں نے لاس ویگاس میں کنزیومر الیکٹرانکس شو میں اس اقدام کی تفصیلات بتائیں۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ 'جو سب سے سخت ایکشن ہوگا وہ یہ کہ ٹوئٹر صارف کسی کو بھی پیغام بھیجنے یا اس پر ردعمل سے روک سکتا ہے'۔

ٹوئٹر کے مطابق صرف صارف کے پاس کنٹرول ہوگا جس کے تحت وہ اپنی مرضی سے دیگر صارفین کو پیغام بھیجنے یا ردعمل کے اظہار کا موقع دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'آن لائن بدسلوکی95 فیصد خواتین صحافیوں کے کام پر اثر انداز ہوتی ہے'

ٹیک کرچ کے مطابق نجی کپمنی کی سربراہ سوزان ژی نے کہا 'ہم نے سوچا اگر ہم واقعی صارف کے ہاتھوں میں مزید کنٹرول دے دیں تو کیا ہوگا؟'

انہوں نے کہا کہ 'ابھی ٹوئٹر پر عوامی گفتگو یہ ہے کہ آپ ٹوئٹ پر کچھ ایسا کریں جو دنیا میں ہر کوئی دیکھے اور ہر کوئی جواب دے، یا آپ کسی سے براہ راست گفتگو کر سکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ آن لائن بدسلوکی ٹوئٹر سمیت بہت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بھی آن لائن بدسلوکی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

8 دسمبر 2018 کو انتخابات کی نگرانی سے متعلق ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے ڈیجیٹل انتخابی مہم کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر عام انتخابات 2018 کو غلط معلومات اور جعلی خبروں سے متاثر کیا گیا، خاص طور پر خواتین سے آن لائن بدسلوکی کی شکایات موصول ہوئی۔

مزید پڑھیں: ’چین میں مسلمانوں سے بدسلوکی نہیں بلکہ ان کی تربیت کی جارہی ہے‘

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی جانب سے ’پاکستان کے عام انتخابات 2018 میں 'خواتین سیاستدانوں کی نمائندگی‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کی گئی۔

ڈی آر ایف رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ خواتین سیاستدانوں کو زیادہ تر ایسے تبصرے ملے جو ذاتی نوعیت کے تھے جبکہ مرد سیاستدانوں کو جس بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا وہ سیاسی نظریات کے گرد مرکوز تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں