کولکتہ میں مودی کی آمد کےخلاف انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر احتجاج

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2020
ریلی میں شریک ایک خاتون سریتا رائے نے کہا کہ جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں وہ بھارت کا مستقبل ہے — فوٹو: اے ایف پی
ریلی میں شریک ایک خاتون سریتا رائے نے کہا کہ جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں وہ بھارت کا مستقبل ہے — فوٹو: اے ایف پی

بھارت کے شہر کولکتہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی آمد کے خلاف 30 ہزار مشتعل مظاہرین نے احتجاجی ریلی نکالی اور متنازع شہریت ترمیمی قانون 2019 کے خلاف نعرے بازی کی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کی مذمت کے لیے کم از کم 30 ہزار مظاہرین نے کولکتہ کی سڑکوں پر احتجاج کیا اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی۔

ریلی میں شریک ایک خاتون سریتا رائے نے کہا کہ 'جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں وہ بھارت کا مستقبل ہے۔'

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت ایکٹ پر عملدرآمد کا نوٹیفکیشن جاری

ہجوم کے شرکا نے شہر کے ہوائی اڈے پر بھی احتجاج کیا اور نعرے بازی کی کہ 'ہم فاشزم کے خلاف ہیں'۔

کولکتہ ایئر پورٹ پر آمد کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کے گھر پہنچے۔

واضح رہے کہ ممتا بینرجی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سخت ناقد ہیں۔

علاوہ ازیں پولیس نے مظاہرین کو نریندر مودی کے پیچھے وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کے گھر جانے سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی

بعد ازاں ممتا بینرجی نے ملاقات کے بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے نریندر مودی سے 'ملک کے وسیع مفادات کے لیے' شہریت ترمیمی قانون کو منسوخ کرنے کا کہا۔

اس بیان کے بعد ممتا بینرجی ازخود سڑکوں پر احتجاج میں شامل ہوگئیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی منظوری دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت: ایوان صدر کی طرف جانے والے یونیورسٹی طلبہ پر پولیس کا لاٹھی چارج

گزشتہ روز بھارتی وزارت داخلہ سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ '10 جنوری 2020 سے مذکورہ ایکٹ کی دفعات نافذ العمل ہوں گی'۔

خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کے باعث 9 جنوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں ممبئی میں ایک اجلاس بھی منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا، تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت میں متنازع بل پر ہنگامے: امریکا، برطانیہ کا اپنے شہریوں کیلئے سفری انتباہ

4 جنوری کو بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے منظور کردہ مسلمان مخالف شہریت قانون کے خلاف جنوبی شہر بنگلور میں تقریباً 30 ہزار، سلی گوری میں 20 ہزار سے زائد اور چنائی میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا جبکہ نئی دہلی، گوہاٹی اور دیگر شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔

متنازع قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں اب تک 25 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں