تائیوان: سائی اِنگ وین دوسری مدت کے لیے صدر منتخب

12 جنوری 2020
تائیوان کی صدر اور نائب صدر پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر حامیوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
تائیوان کی صدر اور نائب صدر پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر حامیوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

تائیوان کی سائی اِنگ وین دوسری مدت کے لیے ریاست کی صدر منتخب ہوگئیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق صدارتی انتخاب میں فتح کے بعد 63 سالہ سائی اِنگ وین کی پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے باہر ان کے ہزاروں حامی جمع ہوئے اور جشن منایا۔

یہ پہلا موقع ہے جب تائیوان میں کوئی خاتون دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئی ہیں۔

سائی اِنگ وین نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'آج ہم نے اپنی جمہوریت اور آزادی کا دفاع کیا ہے، کل ہمیں تمام چیلنجز اور مشکلات پر متحد ہوکر قابو پانا ہوگا۔'

سرکاری نتیجے کے مطابق سائی اِنگ وین نے انتخاب میں ریکارڈ 82 لاکھ (57 فیصد) ووٹ حاصل کیے، جو ان کے 2016 کے انتخاب میں حاصل کیے گئے ووٹوں سے 13 لاکھ زیادہ ہیں۔

ان کے مقابلے میں چین کی حمایت یافتہ جماعت 'کومِنٹانگ' کے ہان کیو وو نے 39 فیصد ووٹ لیے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی صدر نے بیجنگ اور تائیوان کا الحاق ناگزیر قرار دے دیا

صدارتی انتخاب کا نتیجہ چین کے لیے دھچکہ ہے جو تائیوان کو اپنی ریاست سمجھتا ہے اور جس نے سائی اِنگ وین کی شکست کے لیے ہر طرح سے کوششیں کیں۔

چین نے گزشتہ چار سال کے دوران آزاد حکمرانی والے جزیرے پر اس امید میں معاشی، عسکری اور سفارتی دباؤ قائم رکھا کہ وہاں کے ووٹرز سائی اِنگ وین کی صورت میں اس کے مخالف کی حمایت نہ کریں۔

تاہم اس کے تمام حربے ناکام ہوئے اور عوام کی اکثریت نے سائی اِنگ وین کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کے حق میں ووٹ دیئے۔

تائیوان کے اہم فوجی اتحادی امریکا نے نتیجے کا خیر مقدم کیا اور سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے شدید دباؤ کے باوجود ریاست میں استحکام قائم رکھنے کے لیے سائی اِنگ وین کے عزم کی تعریف کی۔

خیال رہے کہ چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک نے 1949 کی خانہ جنگی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

تاہم تائیوان اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملک تصور کرتا ہے جس کی اپنی کرنسی، سیاسی اور عدالتی نظام ہے، تاہم اس نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: پاناما نے تائیوان کو چھوڑ کر چین سے سفارتی تعلقات جوڑ لیے

دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، تاہم 2016 میں صدر سائی انگ وین کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات میں اس وقت مزید خرابی پیدا ہوئی جب انہوں نے جزیرے کو ’ایک چین‘ سمجھنے کے بیجنگ کے موقف کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

گزشتہ ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ اور تائیوان کے الحاق کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ بیجنگ تائپے کی آزادی کی کسی بھی کوشش کے خلاف ہے۔

چین کی جانب سے کہا گیا کہ وہ بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اپنے فوجی آپشن کو ترک نہیں کرے گا۔

شی جن پنگ کے بیان نے تائپے کو بھی جواب دینے پر مجبور کردیا اور تائیوان کے صدر سائی انگ وین نے کہا کہ تائیوان کے عوام بغیر دیکھے اپنی آزادی کو مین لینڈ (چین) کے سپرد نہیں کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں