پی آئی اے نجکاری کیس: ریاستی ادارے کو بند نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2020
چہف جسٹس نے مذکورہ کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
چہف جسٹس نے مذکورہ کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے پی آئی اے نجکاری خسارہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جعلی ڈگری رکھنے والے ملازمین کو ایک ایک کرکے نکالیں گے اور ریاستی ادارے کو بند نہیں ہونے دیں گے۔

عدالت عظمیٰ میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نجکاری خسارہ کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران قومی ایئرلائن کے وکیل نعیم بخاری اور سابق معاون خصوصی شجاعت عظیم کے وکیل پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے سخت ریمارکس سامنے آئے اور انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگری کے مقدمات یہاں سنیں گے اور جعلی ڈگری رکھنے والے ملازمین کو ایک ایک کرکے نکالیں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا پی آئی اے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے ملازمین نے الخیر یونیورسٹی سے ڈگریاں لے رکھی ہیں، یہ یونیورسٹی تعلیمی اسناد فروخت کرتی ہے۔

ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ جعلی ڈگری والے جہاز چلارہے ہیں، اس پر وکیل پی آئی اے نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے موجودہ ایم ڈی ارشد محمود کو کام سے روک دیا ہے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد محمود کے خلاف درخواست کو عدالت عظمیٰ نے پذیرائی نہیں دی تھی۔

خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔

بعد ازاں 9 جنوری 2020 کو پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئرمارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

سماعت کے دوران نعیم بخاری نے بتایا کہ پی آئی اے پر 426 ارب روپے کا قرض ہوگیا ہے، نئی انتظامیہ پی آئی اے کی بحالی اور خسارہ کم کرنے کے لیے کوشاں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کی بساط نہیں تھی تو قرض کیوں لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی خبریں اتنے بڑے قومی ادارے کے ساتھ مذاق ہے، نظریں پی آئی اے کی نجکاری پر نہیں بلکہ نیویارک پر ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ایئرلائن یا جہاز اڑانا نہیں آتا، کیا پی آئی اے کو ادارہ چلانا آتا ہے یا نہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جہاز کے لیے 700 ملازم کام کرتے ہیں، اس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پی آئی اے کی بحالی کا یہ آخری موقع ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آخری موقع کیوں؟ پی آئی اے کیوں نہیں چل سکتی؟ ریاستی ادارے کو بند ہونے نہیں دیں گے۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کو ملنے والا مالی بیل آؤٹ پیکج مہینوں میں ختم ہوجاتا ہے۔

اس موقع پر شجاعت عظیم کے وکیل نے کہا کہ شجاعت عظیم اپنے بیان حلفی میں آڈٹ رپورٹ کے الزامات کو مسترد کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لے کر آئندہ سماعت پر معاونت کریں۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ پی آئی اے نئے جہاز خرید رہا ہے یا نہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پی آئی اے کے پاس پیسے ہوں گے تو جہاز خریدے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ایئر مارشل ارشد محمود کا بطور سی ای او پی آئی اے بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

بعد ازاں عدالت نے پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سال 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں پر بھرتیوں کے کیس پر از خود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں پی آئی اے اب تک 467 اسٹاف ممبرز کو برطرف کرچکا ہے جبکہ 201 سے زائد سابق ملازمین نے اپنی برطرفی کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناعی لے رکھے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جعلی ڈگری پر برطرف کیے گئے عملے میں 16 پائلٹ بھی شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں