تحریک انصاف میں 'ناراض' اراکین اسمبلی سامنے آگئے

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
اراکین اسمبلی آئندہ روز وزیر اعلیٰ سے دوبارہ ملاقات کریں گے — فائل فوٹو/ڈان
اراکین اسمبلی آئندہ روز وزیر اعلیٰ سے دوبارہ ملاقات کریں گے — فائل فوٹو/ڈان

لاہور: اتحادیوں کی جانب مشکلات کا شکار حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی اور پنجاب میں اس کے 'ناراض' اراکین اسمبلی نے عوامی فنڈز اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تقسیم میں نظرانداز کیے جانے پر کھل کر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی شہاب الدین نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے گزشتہ ایک دہائی تک شہباز شریف کی حکومت میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے اور صورتحال اب بھی کچھ مختلف نہیں کیونکہ ہمارے حلقوں کو ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے نظر انداز کیا جارہا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ تمام 20 ایم پی ایز نے نہ ہی فارورڈ بلاک بنایا ہے اور نہ ہی پارٹی قیادت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اور دیگر اراکین اسمبلی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی خاطر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے دو مرتبہ ملاقات کی اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) پنجاب کی 'اعلیٰ بیوروکریسی' میں اپنے حصے کیلئے کوشاں

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعلیٰ نے ہماری تشویش دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تاہم تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

شہاب الدین کا کہنا تھا کہ 'ہم عثمان بزدار سے آئندہ روز ایک اور ملاقات کریں گے'۔

واضح رہے کہ یہ 20 ایم پی ایز کا تعلق ڈی جی خان، بھکڑ، لیہ، وہاڑی، حافظ آباد، چنیوٹ، سرگودھا اور راولپنڈی سے ہے۔

شہاب الدین کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے اضلاع میں لاہور اور فیصل آباد جیسی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں'۔

تحریک انصاف میں ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اراکین اسمبلی میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں کام کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تشویش کی لہر بڑھ رہی ہے۔

ایک روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی متعدد اضلاع میں مکمل انتظامی اختیارات نہ دینے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔

’عثمان بزدار نے اراکین اسمبلی کی تشویش کا نوٹس لے لیا‘

رابطہ کرنے پر تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ایم پی اے کی تشویش پر وزیر اعلیٰ نے فوری نوٹس لیا ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت اور پارٹی قیادت ان 20 ایم پی ایز سے رابطے میں ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ حکومت کو مالیاتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور گزشتہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جماعت کے تمام اراکین اسمبلی کو ان کا حصہ دیا جائے گا'۔

مسلم لیگ (ق) کی تشویش کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز ذمہ دار اتحادی ہیں۔

انہوں نے ایک ہفتے کی مہلت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'تحریک انصاف ان سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی امید نہیں رکھتی'۔

’وزیراعلیٰ پنجاب کو تبدیل نہیں کیا جارہا‘

دریں اثنا پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) نے نہ ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ طلب کیا ہے اور نہ ہی عثمان بزدار کو تبدیل کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی کسی بھی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'عثمان بزدار کو جب تک پنجاب اسمبلی اور وزیر اعظم عمران خان کی حمایت حاصل ہے، انہیں کوئی خطرہ نہیں'۔

پارٹی کے ایم پی ایز کی تشویش کے حوالے سے گورنر کا کہنا تھا کہ 'انٹرا پارٹی اختلاف رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے اور تحریک انصاف آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے جو جمہوری نظام کا نچوڑ ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اور وفاق میں اتحاد کے مستقبل کے لیے ق لیگ، پی ٹی آئی کی بیٹھک

ان کا کہنا تھا کہ 'اراکین اسمبلی نے اپنے مطالبات/ضروریات سامنے لے کر آئے ہیں کیونکہ وہ منتخب ہونے سے قبل اپنے حلقے کے عوام سے جو وعدے کرکے آئے تھے انہیں پورا کرنا چاہتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف کی حکومت اراکین اسمبلی کے مسائل بات چیت اور اتفاق رائے سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائے گی، حکومت کی مصالحتی ٹیم اتحادی جماعتوں سے مسلسل رابطوں میں ہے'۔

رپورٹ کے مطابق ناراض اراکین میں لیہ سے سردار شہاب الدین خان، ڈی جی خان سے سردار مہی الدین خان کھوسہ اور خواجہ محمد داؤد، بھکڑ سے ملک غضنفر عباس چینہ اور عامر عنایت اللہ شاہانی، سرگودھا سے فیصل فاروق چیمہ اور منیب سلطان چیمہ، چنیوٹ سے تیمور لالی، راولپنڈی سے اعجاز خان، حافظ آباد سے جہانگیر بھٹی، وہاڑی سے علی خاکواکی اور محمد افضل، افتخار گوندل، گلریز اصغر چن اور 3 خواتین رکن اسمبلی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں