سندھ میں وہی افسر رہے گا جو اس کے نمائندوں کی پالیسیوں پر چلے گا،مراد علی شاہ

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2020
ہم نئے آئی جی کے لیے وفاق کو پانچ نام بھیج چکے ہیں، مراد علی شاہ — فوٹو: ڈان نیوز
ہم نئے آئی جی کے لیے وفاق کو پانچ نام بھیج چکے ہیں، مراد علی شاہ — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) کلیم امام کو صوبے کے عوام اور کابینہ مسترد کر چکی ہے جبکہ صوبے میں وہی افسر رہے گا جو اس کے نمائندوں کی پالیسیوں پر چلے گا۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کے دوران سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد پر تنقید کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ 'جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام سب سے پہلے مجھ پر لگایا گیا اور ایک دہشت گرد سے کہلوایا گیا کہ رینجرز کی حراست کے دوران میں اس سے ملا، میں نے پولیس کو معاملے کی فوری انکوائری کی ہدایت کی، پولیس کے ہیلے بہانے پر میں نے خود انکوائری کی اور آئی جی اور اے آئی جی نے بہت معذرت کی کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے ماتحت افسران کیا کر رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'بعد ازاں میرے پاس شکارپور سے پولیس سے متعلق ایک شکایت آئی جس میں نے ایک بہترین افسر کو انکوائری کا کہا لیکن وہ انکوائری رپورٹ آج تک میرے پاس نہیں آئی کیونکہ آئی جی کلیم امام نے اسے دبا لیا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر رضوان نے 22 بے گناہ لوگوں کا انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان بھجوایا۔'

وزیر اعظم نے کہا کہ امتیاز شیخ کے خلاف ڈاکٹر رضوان کی 'خفیہ رپورٹ' سے متعلق پولیس نے جواب دیا ہے کہ رپورٹ کا جائزہ لیا جارہا ہے اور مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق کی جارہی ہے، تصدیق کے بعد معاملے پر میرٹ کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مطلب ابھی خود پولیس کے محکمے کو رپورٹ پر یقین نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: امتیاز شیخ کا ہتک عزت کا دعویٰ، ایس ایس پی رضوان کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس

انہوں نے کہا کہ 'اس نالائق افسر نے ایک معزز رکن اسمبلی کے خلاف، جنہیں ان کے صوبے نے منتخب کیا ہے، ایک بھونڈی رپورٹ بنائی جس میں غلط اعداد و شمار اور غلط حوالے دیے گئے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پھر جب وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے رپورٹ سے متعلق میڈیا میں جواب دیا تو ان کے خلاف دو سال پرانی رپورٹ سامنے لائی گئی۔'

مراد علی شاہ نے کہا کہ 'میں حلفیہ کہتا ہوں کہ پولیس کی کارروائی میں کبھی مداخلت نہیں کی اور میرٹ پر کام کرنے کی ہدایت کی، لیکن پولیس اور اس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پارٹی بن چکے ہیں جو سیاسی مدد مانگ رہے ہیں، ان کے جیسا کمزور افسر پہلے کبھی نہیں دیکھا جبکہ سیاسی مدد مانگنا پولیس کے ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میڈیا سے گفتگو کے دوران کلیم امام سے جب کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال سے متعلق سوال کیا گیا تو کرکٹ کی باتیں کرنے لگے اور پولیس میں مداخلت کا تاثر دیا، اس کے بعد میں نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ کراچی میں تمام افسران آپ کی سفارش سے لگائے تو ان افسران پر الزامات لگانا شروع کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نئے آئی جی کے لیے وفاق کو پانچ نام بھیج چکے ہیں، مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم ڈیووس سے واپس آنے کے بعد معاملے پر فیصلہ کر لیں گے اور انہوں نے کہا ہے کہ بلکل ہٹا دیتے ہی۔'

وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن سے متعلق کہا کہ اگر وہ معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ کرنا چاہتی ہے تو کر لے لیکن وہ پہلے بھی ناکام رہی اور آئندہ بھی ناکام رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نے آئی جی کو تیمور تالپور کی گرفتاری سے بھی نہیں روکا لیکن وہ خود کمزور ہیں اور دباؤ برداشت نہیں کر سکے، ایسا ناکام افسر یہاں نہیں چل سکتا، صوبے میں وہی افسر چلے گا جو صوبے کے نمائندوں کی پالیسیوں پر چلے گا، ہماری پالیسیاں غلط نہیں ہیں جبکہ لوگوں نے پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو پہلی بار منتخب نہیں کیا۔'

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی کلیم امام کو ہٹانے سے روک دیا

کلیم امام کو عہدے سے ہٹانے کی منظوری اور ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ

یاد رہے کہ سندھ کابینہ نے 15 جنوری 2020 کو انہیں عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دے دی تھی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے دور میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ساتھ ساتھ سندھ پولیس کے سربراہ پر حکومت کے احکامات نہ ماننے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔

اس بارے میں ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کو جمعرات کی شام ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے آئی جی سندھ کے لیے غلام قادر تھیبو، مشتاق احمد مہر اور ڈاکٹر کامران کے نام تجویز کیے تھے۔

تاہم وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی درخواست پر آئی جی سندھ کو فوری ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست زیر غور ہے جس پر کسی فیصلے تک کلیم امام ہی آئی جی سندھ رہیں گے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ روز آئی جی سندھ کے لیے مزید دو نام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: سندھ کابینہ نے آئی جی کلیم امام کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دیدی

دوسری جانب کلیم امام کو عہدے سے ہٹانے کی منظوری کے اگلے روز ہی ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد کی 'خفیہ رپورٹ' منظر عام پر آئی تھی۔

رپورٹ میں صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں امتیاز شیخ پر الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ 'وہ سیاسی مخالفین کو دبانے اور معاشرے میں اپنا خوف قائم کرنے کے لیے اپنے کرمنل گینگ کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ اسی گینگ کے افراد نے سیاسی مخالف شاہ نواز بروہی کے بیٹے کو بھی قتل کیا۔'

'خفیہ' رپورٹ میں ضلع کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ 'امتیاز شیخ پولیس پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور محکمے میں اہم عہدوں پر من پسند افسران تعینات کرانے کے لیے ضلع کے ایس ایس پی پر مستقل دباؤ ڈالتے ہیں جبکہ یہ افسران محکمے کی خفیہ معلومات انہیں فراہم کرتے تھے۔'

اپنے الزامات کے ثبوت کے طور پر ڈاکٹر رضوان نے امتیاز شیخ، ان کے سیکریٹری، بیٹے اور ان کے قریبی ساتھیوں کا موبائل ریکارڈ بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبائی وزیر نے کئی بار 'مطلوب' اتو شیخ جیسے مجرمان سے رابطے کیے جس کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتیاز شیخ کا کرمنل گینگ بھی ہے جو ضلع شکار پور کے تھانہ نیو فوجداری کی حدود میں واقعے علاقے چِنگی مُقام میں منشیات فروخت کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امتیاز احمد شیخ، ان کے بھائی مقبول احمد شیخ اور بیٹے فراز احمد شیخ نے نجی محافظ بھی رکھے ہوئے ہیں جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور 'اشتہاری' ہیں۔

امتیاز احمد شیخ نے گزشتہ روز رضوان احمد کو ایک ارب روپے کے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں