بیوروکریٹس کی ترقی کے نئے اصول اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2020
ہائی کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے معاونت بھی طلب کرلی—فائل فوٹو: فیس بک
ہائی کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے معاونت بھی طلب کرلی—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد:بی ایس 18 سے بی ایس 20 کے افسران کے عہدوں میں ترقی کے لیے سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کے 27 جنوری کو طے شدہ اجلاس سے قبل ایک سابق بیوروکریٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے پروموشن رولز اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے معاونت بھی طلب کرلی۔

درخواست گزار سکندر حیات میکن نے ’سول سرونٹس پروموشن (بی پی ایس-18 سے بی پی ایس-21) رولز برائے 2019 کو اعلیٰ عدالتوں کے احکامات سے متصادم قرار دیا'۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سینئر بیوروکریٹس کی ترقی کے طریقہ کار میں تبدیلی کردی

3 دسمبر 2019 کو پی ٹی آئی حکومت نے یہ اصول نافذ کیے تھے جس کے تحت سی ایس بی اراکین کو پسندیدہ امیدوار کی ترقی کے لیے 30 صوابدی مارکس کی اجازت دی گئی تھی۔

اس نئے اصول کے مطابق سی ایس بی اراکین انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر مارکس دینے کے لیے آزاد ہیں جو بطور خاص اعلیٰ عہدوں کی ترقی کے لیے درج کیا گیا ہے، سی ایس بی افسران کے خلاف موصول ہونے والی معلومات کو بھی مدِ نظر رکھ سکتا ہے۔

ان اصولوں میں پہلے کے مقابلے 100 مارکس کی شرح تبدیل کردی گئی تھی جس میں سی ایس بی کے پاس 15 فیصد مارکس ہوتے تھے، رول 2019 میں سی ایس بی کی صوابدید میں 30 فیصد مارکس مختص کر کے بورڈ کا اختیار دگنا کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

نئے قواعد متعارف کروانے سے قبل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لیے پاسنگ مارکس 75 تھے جبکہ دیگر سروسز کے امیدواروں کے لیے مقررہ پاسنگ مارکس 72 تھے۔

یہ مارکس بہترین کارکردگی اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) اور ایڈمنسٹریٹو کالج سے پیشہ ورانہ کورسز کی کامیابی سے تکمیل کی بنیاد پر دیے جاتے تھے۔

واضح رہے کہ سالانہ خفیہ رپورٹس(اے سی آر) کے 50 مارکس جبکہ پروفیشنل کورسز کے 35 مارکس ہوتے تھے اور اگر کوئی امیدوار 80 فیصد مارکس حاصل کر لے تو اس کی ترقی کا امکان ہوتا تھا چاہے سی ایس بی اسے کوئی مارک نہ دے۔

تاہم نئے اصول کے تحت ایک افسر اے سی آر میں 90 فیصد مارکس حاصل کر کے بعد بھی اس وقت تک ترقی نہیں پا سکتا جب تک سی ایس بی سے 70 سے 80 فیصد مارکس نہ حاصل کرلے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بنیاد ختم ہوجائے تو اس پر ملی ترقی کیسے برقرار رہے گی؟‘

مذکورہ رولز کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کے متعارف کردہ رولز قانون کے ضابطوں کے مطابق نہیں اور افسران کے بنیادی حق کے خلاف ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومت پاکستان کے تمام گزیٹڈ افسران کن کی بی ایس 18، بی ایس 19، بی ایس 20 اور بی ایس 21 میں ترقی ہونی ہے حال میں نافذ کردہ رولز سے شاکی ہیں، ان رولز کے ذریعے سی ایس بی اور ڈپارٹمنٹ سلیکشن بورڈ (ڈی ایس بی) کو بی ایس 18 سے بی ایس 21 تک میں ترقی کے حوالے غیر واضح اور مبہم جائزاتی اسٹرکچر کی بنیاد پر بے لگام اختیار دیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس مینا گل حسن اورنگزیب نے متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایک ماہ میں ہر پیراگراف کے جواب پر مشتمل رپورٹ جمع کروائی جائے جبکہ مزید سماعت 5 مارچ تک ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں