رپورٹ کرپشن میں اضافے کی عکاسی نہیں کرتی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2020
چند روز قبل‏ دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی تھی
— فائل فوٹو: رائٹرز
چند روز قبل‏ دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی تھی — فائل فوٹو: رائٹرز

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی میں کمی بدعنوانی میں کمی یا اضافے کی نشاندہی نہیں کرتی کیونکہ یہ اس حوالے سے طے شدہ معیار کے اندر موجود ہے۔

چند روز قبل‏ دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کرپشن کے خلاف حکومت کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں درجہ بندی تنزلی کا شکار ہوئی اور عالمی درجہ بندی میں 3 درجہ تنزلی کے بعد پاکستان 120ویں نمبر پر پہنچ گیا۔

تاہم آج (26 جنوری کو) جاری کیے گئے اعلامیے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ وہ ریکارڈ کو صحیح رکھنا چاہتے ہیں اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) 2019 پر غلط رپورٹنگ سے متعلق وضاحت دینا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو جانبدار قرار دے کر مسترد کردیا

بیان میں کہا گیا کہ میڈیا کے کچھ حصے برٹلس مین اسٹف ٹنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020 کی درجہ بندی کے بجائے 2018 انڈیکس کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے غلط رپورٹنگ کررہے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ برٹلس مین اسٹف ٹنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020 کا ڈیٹا اب تک منظر عام پر نہیں لایا گیا اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاس خصوصی طور پر رپورٹ کی تیاری کے لیے موجود تھا۔

رپورٹ پر حکومت کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کسی بھی طریقے سے سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کو سب سے زیادہ کرپٹ نہیں کہا اور نہ ہی موجودہ حکومت کو دوسری کرپٹ ترین حکومت کہا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومتوں کو شفاف ترین بھی نہیں کہا گیا تھا۔

خیال رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ جس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بل بوتے پر موجودہ حکومت کی کارکردگی صاف اور شفاف نہ ہونے کے فتوے لگائے جارہے ہیں اس ادارے کی اپنی ٹرانسپیرنسی سوالیہ نشان ہے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی جن اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنی فہرست مرتب کرتی ہے اسے ترتیب دینے والے افراد اور جہاں سے یہ اعداد و شمار اکٹھا کیا جارہا ہے وہ گٹھ جوڑ سامنے آنا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ سال پاکستان میں کرپشن بڑھی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

فردوس عاشق ایوان کے مطابق اس رپورٹ کو کون تسلیم کرے گا کہ سب سے زیادہ بدعنوانی مشرف دور میں ہوئی اس کے بعد عمران خان کے دورِ حکومت کو زیر بحث لایا گیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کو درج کیا گیا۔

اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ سی پی آئی 2019 نے پاکستان یا کسی اور ملک کے لیے ایسی درجہ بندی جاری نہیں کی'۔

بیان میں کہا گیا کہ سی پی آئی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا اپنا ذاتی ڈیٹا نہیں ہوتا اور اس کی تیاری میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا کوئی کردار نہیں، نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے کوئی ڈیٹا دیا۔

اس میں مزید وضاحت دی گئی کہ کرپشن پرسیپشنز انڈیکس جرمنی ونگ کی جانب سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تیاری میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 'سی پی آئی 12 مختلف اداروں کے 13 مختلف ذرائع سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں جو پبلک سیکٹر کرپشن کی سطح پر کاروباری افراد اور ملکوں کے ماہرین کی بدعنوانی کی معلومات فراہم کرتی ہے'۔

اس میں کہا گیا کہ سی پی آئی میں شامل 13 ذرائع میں سے ہر ایک کے اسکورز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے معیاری ہے اور اس میں شامل ڈیٹا کو جمع کرنے کے سافٹ ویئر استعمال کیا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں