حکومت نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو جانبدار قرار دے کر مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2020
معاون خصوصی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا—تصویر: ڈان نیوز
معاون خصوصی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا—تصویر: ڈان نیوز

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو جانبدار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستانی عوام میں مایوسی پھیلانے کے لیے ایک منظم اور ٹارگٹڈ ایجنڈا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا میڈیا، عوام اور سول سوسائٹی میں تذکرہ ہورہا ہے اس کی اپنی ساکھ اور شفافیت کا جائزہ لیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کرپشن کے خلاف حکومت کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں درجہ بندی تنزلی کا شکار ہوئی اور عالمی درجہ بندی میں 3 درجہ تنزلی کے بعد پاکستان 120ویں نمبر پر پہنچ گیا۔

معاون خصوصی نے مذکورہ رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بل بوتے پر موجودہ حکومت کی کارکردگی صاف اور شفاف نہ ہونے کے فتوے لگائے جارہے ہیں اس ادارے کی اپنی ٹرانسپیرنسی سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ سال پاکستان میں کرپشن بڑھی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی جن اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنی فہرست مرتب کرتی ہے اسے ترتیب دینے والے افراد اور جہاں سے یہ اعداد و شمار اکٹھا کیا جارہا ہے وہ گٹھ جوڑ سامنے آنا ضروری ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سربراہ نے سابقہ دورِ حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پذیرائی بخشی اور بدعنوانی کی کمی کے حوالے سے رپورٹ کے نام پر مذاق نامہ مرتب کیا جس پر انہیں سفیر کے عہدے سے نوازا گیا تھا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نے ان سفیر کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جس کی وجہ سے انہیں اپنے وقت پر ریٹائر ہونا پڑا۔

فردوس عاشق ایوان کے مطابق اس رپورٹ کو کون تسلیم کرے گا کہ سب سے زیادہ بدعنوانی مشرف دور میں ہوئی اس کے بعد عمران خان کے دورِ حکومت کو زیر بحث لایا گیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کو درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کا ایک سال: معاشی میدان میں کیا کچھ ہوا؟

انہوں نے کہا کہ جنہیں عدالتوں نے کرپشن کنگ قرار دیا اور جن کے کارنامے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ان جماعتوں کو جس طرح اس رپورٹ میں کلین چٹ دی گئی اس سے ظاہر ہے کہ یہ آزاد اور شفاف رپورٹ نہیں ہے۔

معاون خصوصی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو جانبدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ پاکستانی عوام، جنہوں نے پاکستان سے بدعنوانی سے خاتمے کے لیے وزیراعظم پاکستان کو منتخب کیا، ان میں مایوسی پھیلانے کے لیے ایک منظم اور ٹارگٹڈ ایجنڈا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ کرپشن کنگز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے اپنے گناہ چھپانے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں جس میں انہیں مایوسی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ موڈیز سمیت دیگر بین الاقوامی ادارے موجودہ حکومت کے معاشی اشاروں میں بہتری کی نہ صرف تائید بلکہ تعریف کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی طاقتور حکومت نتائج کیوں نہیں دے پارہی؟

انہوں نے کہا کہ دنیا وزیراعظم عمران خان کی قابلیت کو تسلیم کرتی ہے یہ رپورٹ دنیا کو گمراہ نہیں کرسکتی اور صرف ایک سال میں بدعنوان عناصر سے کی گئی ریکوری گزشتہ 10 سالوں کے مقابلے زیادہ ہے۔

معاون خصوصی نے ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ مرتب کرنے والوں کو مدعو کرتے ہوئے کہا کہ آئیں اور بتائیں کہ کس بنیاد پر اس حکومت کو بدعنوانی کے اشاروں کے ساتھ منسلک کیا جس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں اور ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کرپشن کنگز ایسی تنظیموں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں وہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بجائے میاں نواز شریف کے پلیٹلیٹس کی تعداد والی رپورٹس پر گفتگو کریں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ

گزشتہ روز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کرپشن کے خلاف حکومت کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں درجہ بندی تنزلی کا شکار ہوئی ہے اور عالمی درجہ بندی میں 3 درجہ تنزلی کے بعد پاکستان 120ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 180ملکوں اور علاقوں کے سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن کا جائزہ لیا اور اس میں سب سے زیادہ کرپٹ کو صفر اور شفاف ترین ملک کے لیے 100کا ہندسہ رکھا گیا ہے۔

پاکستان کا اسکور گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہو کر 33 سے 32 ہو گیا ہے جو ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا واضح ثبوت ہے اور نتیجتاً عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی رینکنگ 3 درجہ کم ہو کر 117 سے 120 ہو گئی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین سہیل مظفر نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا 33 سے کم ہو کر 32 ہونے پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سال متعدد ملکوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ 18 ماہ سے تحریک انصاف کی حکومت ہے جو مسلسل کرپشن کو ختم کرنے کے دعوے کرتی رہی ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال سے قومی احتساب بیورو(نیب) بھی کافی سرگرم ہے اور اس نے اپوزیشن جماعتوں کے مختلف اہم رہنماؤں پر بدعنوانی کےالزامات کے تحت مقدمات بنائے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی متعدد بار ملک سے کرپشن کے خاتمے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں