پشاور: پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین گرفتار، 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2020
منظور پشتین پی ٹی ایم کے سربراہ ہیں—فائل فوٹو: آئمہ کھوسہ
منظور پشتین پی ٹی ایم کے سربراہ ہیں—فائل فوٹو: آئمہ کھوسہ
منظور پشتین پی ٹی ایم کے سربراہ ہیں—فوٹو: سراج الدین
منظور پشتین پی ٹی ایم کے سربراہ ہیں—فوٹو: سراج الدین

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے شاہین ٹاؤن سے پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا گیا۔

اس حوالے سے تہکال پولیس اسٹیشن کے عہدیدار شیراز احمد نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پیر کو علی الصبح انہیں گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے دیگر 9 پی ٹی ایم کارکنوں کو گرفتار کیا، جن کی شناخت محمد سلمان، عبدالحمید، ادریس، بلال، محب، سجادالحسن، ایمل، فاروق اور محمد سلمان کے نام سے ہوئی۔

بعد ازاں پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین کو پشاور کے جوڈیشل کمپلیکس میں سیشن جج کے سامنے پیش کیا گیا، اس دوران سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔

جہاں عدالت نے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تو وہیں عدالت انہیں ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ سے متعلق فیصلہ کل کرے گی کیونکہ ان کے خلاف اسی علاقے میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'اب وقت ختم ہوا'، پاک فوج کی پی ٹی ایم رہنماؤں کو تنبیہ

پولیس کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سٹی پولیس تھانے میں پی ٹی ایم کے سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 (مجرمانہ دھمکیوں کے لیے سزا)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کا فروغ)، 120 بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124 (بغاوت) اور 123 اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کے وقار کو تباہ کرنے کی حمایت) کے تحت درج کیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب ایف آئی آر کی نقل کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں منظور پشتین اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں نے ایک جلسے میں شرکت کی جہاں پی ٹی ایم سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔

ایف آئی آر کے مطابق پشتین نے ریاست سے متعلق مزید توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔

دوسری جانب پی ٹی ایم کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'یہ پرامن اور جمہوری طریقے سے اپنے حقوق مانگنے کے لیے ہماری سزا ہے، منظور پشتین کی گرفتاری سے ہمارے عزم کو تقویت ملے گی، (لہٰذا) ہم منظور پشتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں'۔

انہوں نے پی ٹی ایم کارکنان اور حامیوں پر زور دیا کہ وہ گرفتاری کے تناظر میں پرامن رہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ہم مشاورت کے بعد ایک حکمت عملی مرتب کریں گے، ہم ان لوگوں کے خلاف ہیں جو آئینی حقوق کے لیے کیے گئے مطالبات پر سب سے زیادہ پریشان ہیں (لیکن) ہم یہ کرنا جاری رکھیں گے'۔

ادھر انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی منظور پشتین کی 'فوری اور غیر مشروط' رہائی کا مطالبہ کردیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر ایک ٹوئٹ میں گروپ کا کہنا تھا کہ منظور پشتون کو آزادی اظہار رائے اور پرامن اسمبلی کے لیے اپنے انسانی حقوق استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا، انہیں غیرمشروط طور پر فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔

پی پی پی، سینیٹرز کا منظور پشتین کی فوری رہائی کا مطالبہ

ادھر پاکستان پیلزپارٹی (پی پی پی) اور ایوان بالا (سینیٹ) کے کچھ اراکین کی جانب سے منظور پشتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

پیپلزپارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ منظور پشتین کو فوری رہا ہونا چاہیے اور حکومت اور قبائی علاقوں کے نوجوانوں کے درمیان بات چیت شروع ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات 'جائز' ہیں اور 'منظور پشتین کی گرفتاری کے ذریعے ان کا رخ نہیں موڑا جاسکتا'۔

پی پی پی خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری فیصل کنڈی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'سیاسی گرفتاریوں سے صرف صورتحال خراب ہوتی ہے اور سیاسی معاملات حل کرنے میں مدد نہیں ملتی'۔ فیصل کنڈی کا کہنا تھا کہ وزیردفاع پرویزخٹک کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کے کچھ روز بعد منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی بےوقوفانہ اور قابل مذمت ہے کہ قبائلہ نوجوان کی آواز کو اس وقت ریاستی طاقت کے ذریعے خاموش کروایا جارہا جب مذاکرات کی اشد ضرورت ہے۔

ادھر سینیٹرز عثمان کاکڑ اور حاصل بزنجو نے سینیٹ اجلاس کے دوران منظور پشتین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) رہنما عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ 'منظور پشتین بین الاقوامی سطح پر مشہور رہنما ہیں، ان کی گرفتاری پر بڑا آئے گا'۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 برس میں منظور پشتین نے 'جمہوری مطالبات' کے لیے 'جمہوری جدوجہد' کر رہے تھے۔

پشتون تحفظ موومنٹ

واضح رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایسا اتحاد ہے جو سابق قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کے خاتمے کے مطالبے کے علاوہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی گرفتاریوں کے خاتمے پر زور دیتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ایک سچے اور مفاہمتی فریم ورک کے تحت ان کے محاسبے کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم کا بنوں میں جلسہ، پختون رہنماؤں سے اتحاد کا مطالبہ

پی ٹی ایم ملک کے ان قبائلی علاقوں میں فوج کی پالیسیوں کی ناقد ہے، جہاں حالیہ عرصے میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا گیا تھا۔

تاہم پی ٹی ایم کے رہنما خاص طور پر اس کے قومی اسمبلی کے اراکین بغیر کسی عمل کے انتظامیہ کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کے لیے فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم پاک فوج کا کہنا کہ یہ پارٹی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ریاست کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس پی ٹی ایم کے دو رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو پولیس نے خرقمر میں مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر فوجی اہلکاروں سے تصادم اور تشدد پر گرفتار کیا تھا۔

پی ٹی ایم کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملک کے قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے ان کی پرامن جدوجہد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں