’انسانی حقوق پر تجارتی مفادات کو ترجیح‘، یورپی پارلیمنٹ میں بھارتی قانون پر ووٹنگ ملتوی

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2020
مشترکہ قرارداد پر اب مارچ  میں ووٹنگ ہوگی— فائل فوٹو:اے ایف پی
مشترکہ قرارداد پر اب مارچ میں ووٹنگ ہوگی— فائل فوٹو:اے ایف پی

بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف 761 اراکین پر مشتمل یورپی پارلیمنٹ کے 5 بڑے گروہوں کے 560 اراکین کی حمایت کردہ قرارداد پر ووٹنگ مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

قرارداد پر ووٹنگ ملتوی ہونے کو اکثر اراکین کی جانب سے تنقید کرتے ہوئے بھارت کی سفارتی لابی کے دباؤ کی صورت میں یورپی یونین کے ’ہتھیار ڈالنے اور ڈھیر ہوجانے‘ کی اہم مثال قرار دیا گیا۔

برسلز میں 29 جنوری کو قرارداد پر بحث کے دوران گرینز پارٹی کے نام سے معروف یورپین فری الائنس کے اسکاٹ اینسلی نے تقریر کرتے ہوئے بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ووٹنگ ملتوی ہونے کی مذمت کی اور کہا کہ اس خوفناک فیصلے پر ان کا دل ٹوٹ گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ یورپی یونین کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق ہمارے عزم کے بجائے بھارت کے ساتھ ایک اور تجارتی اجلاس کو ترجیح دینے کا نتیجہ ہے۔

مزید پڑھیں: یورپی پارلیمنٹ کا مقبوضہ کشمیر کے الحاق، شہریت قانون کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ کا فیصلہ

اسٹاک اینسلی نے کہا کہ ’ہم نے اس اسلاموفوبک پالیسی کے خلاف اقدام اٹھانے سے انکار کردیا ہے جو یورپی یونین کی نصف آبادی کے برابر 20 کروڑ مسلمانوں کو بے وطنی، تشدد یا ملک بدری کی جانب دھکیل سکتی ہے‘۔

گرینز پارٹی کے رکن یورپی پارلیمنٹ نے نشاندہی کی کہ یورپ میں 184 منتخب اراکین پر مشتمل یورپین پیپلز پارٹی (ای پی پی) سمیت یورپی پارلیمنٹ کے تمام بڑے گروہوں نے مشترکہ طور پر اس قرارداد کی نشاندہی کی تھی لیکن آج دوبارہ ووٹنگ منسوخ کرنے کو منتخب کیا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ میں 4 بڑی جماعتوں ای پی پی، پروگریسو الائنس آف سوشلسٹس اینڈ ڈیموکریٹس (ایس اینڈ ڈی)، رینیو یورپ گروپ اور یورپین یونائیٹڈ لیفٹ/ نارڈک گرین لیفٹ (جی یو ای/ این جی ایل) نے بھارت کے خلاف مشترکہ قرارداد پر دستخط کیے تھے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

تاہم 29 جنوری کو قرارداد پر ہونے والی بحث میں ان 4 جماعتوں میں سے 3 کے ایک ایک پارلیمنٹیرین نے شہریت ترمیمی قانون کی کھلی حمایت کی اور نئے قانون کو ’مثبت امتیاز‘ کی مثال قرار دیا۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد ایس اینڈ ڈی پارلیمینٹیرین نینا گل نے کہا کہ ’یہ مثبت امتیاز کا عمل ہے جس کا مقصد پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کو شامل کرنا ہے جو کئی سالوں سے بھارت میں ہیں جو ان ممالک میں غیر مسلموں کو درپیش اعلیٰ سطح کی تفریق کو تسلیم کرتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ہندو قوم پرست نے 'یہ لو آزادی' کہہ کر مظاہرین پر فائرنگ کردی

انہوں نے کہا کہ ’یہ دیگر گروہوں کو خارج کرنے کی کوشش نہیں کررہا جو اس کیٹیگری میں شامل نہیں ہوتے‘۔

قرارداد پر ووٹنگ ملتوی کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے نینا گل نے کہا کہ قرارداد حقائق سے متعلق غلطیوں سے بھری ہوئی تھی۔

نینا گل نے فیصلے کا خیرمقدم کیا—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ
نینا گل نے فیصلے کا خیرمقدم کیا—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ

نینا گل نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ظلم سے متعلق ان کے خدشات کو سنا نہیں گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا اس ایوان نے ان سنگین خلاف ورزیوں پر تھوڑی توجہ بھی دی تھی جو آج ہم سی اے اے کو دے رہے ہیں؟ شاید بھارت کو ایسے اقدامات نہ کرنے پڑتے۔

نینا گل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر غور تک ووٹنگ کا انتظار کرنا صحیح فیصلہ ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

رینیو یورپ گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک اور بھارتی نژاد برطانوی رکن یورپی پارلیمنٹ دنیش دھامیجا نے قرارداد پر اپنے گروپ کے موقف کے خلاف اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ظلم و ستم کا شکار افراد کو ملک میں آنے کی اجازت دے رہا ہے اور وہ غلط ہیں؟ وہ صحیح ہیں کیونکہ انہوں نے مہاجرین کو ملک میں آنے کی اجازت دی ہے۔

—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ
—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ

دنیش دھامیجا نے کہا کہ یہ تحریک ان تینوں مسلم ممالک میں سے کسی کو پناہ گزینوں کا بحران پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

نینا گل کے بیان کی مخالت کرتے ہوئے جان ہووارتھ نے کہا کہ شہریت قانون انتہائی امتیازی سلوک پر مبنی اور اسلاموفوبک ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنے لوگوں کی میں نمائندگی کرتا ہوں مجھے یہ بھارتی شہریت قانون کی ترامیم خطرناک لگتی ہیں، یہ قانون سازی کا انتہائی امتیازی حصہ ہے جو ایک خاص مذہب کو نشانہ بناتا ہے۔

—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ
—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ

جان ہووارتھ نے کہا کہ نیا قانون بھارت کی سیکولر نوعیت کے لیے خطرہ ہے اور یہ واضح ہے کہ نئے قانون سے مسلمانوں کا الگ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل پر احتجاج جاری، بین الاقوامی سطح پر تنقید

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یورپی یونین کی جانب سے بھارتی حکومت کو ایک پیغام بھیجا جانا چاہیے کیونکہ یہ ہندوتوا کی حکومت ہے اور پیغام بہت واضح ہونا چاہیے کہ چاہے کشمیر ہو یا شہریوں کے حقوق، انسانی حقوق کا احترام دیگر شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کا اہم عنصر ہیں اور انسانی حقوق کے احترام کے بغیر بطور یونین بھارت سے ہمارا تعلق ایک سنگین خطرے میں آجائے گا۔

رینیو گروپ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی رکن یورپی پارلیمنٹ شفق محمد نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں موجود افراد نے سوچا کہ کاروباری اور تجارتی مفادات انسانی حقوق سے زیادہ اہم ہیں۔

—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ
—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ

نئے قانون کے نتیجے میں ہونے والے بے وطنی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن پر عملدرآمد کا مطلب ہے کہ صرف آسام میں موجود 19 لاکھ افراد یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔

ای پی پی کے رکن مائیکل گاہلر نے کہا کہ بھارت یورپی یونین کا اہم اقتصادی اور سیاسی شراکت دار ہے اور ووٹنگ سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے۔

انہوں نے بھی ترامیم کو مثبت تفریق قرار دیا اور کہا کہ نئے شہریت قانون کے تحت اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مسلمان ہیں، عیسائی یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ وہ بھارت میں رہتے ہیں۔

—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ
—اسکرین شاٹ: یورپی پارلیمنٹ ویب سائٹ

دیگر اراکین جو قرارداد پر ڈٹے رہے ان کی جانب سے بھارتی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔

جی یو ای/ این جی ایل گروپ کی لڈویا ولنویوا رویز نے کہا کہ صدر مودی ٹرمپ اور جائر بولسونارو کی طرح اپنی دوسری مدت میں ایسے اقدامات سامنے لارہے ہیں جو کشمیر میں تنازع کو بڑھادے گا اور ہمیں ان لاکھوں بھارتیوں کے ساتھ کام کرنا چاہیے جو اپنے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں۔

مشترکہ قرارداد کا حصہ نہ بننے والے گروہ آئیڈینٹٹی اینڈ ڈیموکریسی گروپ نے ووٹ ملتوی کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو جمہوری طریقوں سے اس مسئلے سے نمٹنے دیں۔

اس مشترکہ قرارداد میں بھارتی حکومت سے این آر سی پر اٹھائے گئے جائز تحفظات کے حل کا مطالبہ کیا گیا ہے جو کچھ گروہوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

قرارداد میں شہریت ترمیمی قانون کے بعد بھارت کے مختلف حصوں میں ہونے والے تشدد اور ظلم کی مذمت کی گئی تھی اور بھارتی حکام جانب سے عالمی نیٹ ورکس کو انٹرنیٹ رسائی، مواصلاتی نظام سے دور رکھنے اور معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو روکنے کے فیصلے کی مذمت بھی کی گئی تھی۔

یہ قرارداد پیش کرنا صرف اس لیے اہم نہیں کہ اس پر ووٹنگ ملتوی ہوگئی بلکہ اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اراکین کے لیے آخری اجلاس تھا جبکہ اسی روز برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کی حتمی منظوری دے دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: یورپین پارلیمنٹ نے اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کی حتمی منظوری دے دی

ان میں سے اکثر ارکان نے قرارداد پیش کی تھی اور مسودے کی تیاری میں فعال کردار ادا کیا تھا۔

28 جنوری کو مشترکہ قرارداد پیش ہونے سے قبل بھارتی شہریت قانون پر 6 علیحدہ قراردادیں بحث اور ووٹ کے لیے جمع کروائی گئی تھیں جو یورپی پارلیمنٹ میں موجود مختلف گروہ کی جانب سے تیار کی گئی تھیں۔

بھارت شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گروہوں کی جانب سے معاہدہ ہونے کے بعد قراردادوں کو ایک ہی میں ضم کرنے کے بعد مشترکہ قرارداد پیش کی گئی تھی جس پر پہلی مرتبہ 29 جنوری کو بحث کی گئی تھی۔

ووٹنگ مارچ تک ملتوی ہونے سے قبل مشترکہ قرارداد پر 30 جنوری کو ووٹنگ ہونی تھی، مشترکہ قرارداد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کا الحاق اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کے مسائل شامل نہیں۔

قرارداد پر بحث کے بعد یورپی کمیشن کی نائب صدر اور امور خارجہ و سیکیورٹی پالیسی کے لیے یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ ہیلینا ڈالی نے کہا کہ اس حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا انہوں نے نوٹس لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مستقبل میں ہونے والے اجلاس میں بھارت کے ساتھ مذاکرات میں تیزی لانے جمہوریت سے متعلق ہمارے باہمی عزم، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق سمیت باہمی دلچسپی کے مسائل پر پر غور کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں